افغان خواتین میں خودسوزی کا بڑھتا ہوا رجحان
4 اکتوبر 2010بہت تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل افغان شہر ہرات کے صرف ایک ہسپتال میں سال رواں کے دوران اب تک 67 ایسی خواتین علاج کے لئے لائی جا چکی ہیں، جنہوں نے اپنے حالات سے تنگ آ کر خودسوزی کی کوشش کی تھی۔
ان میں سے تازہ ترین واقعہ ستمبر کے آخر میں حلیمہ نامی ایک نوجوان خاتون کی طرف سے خودکشی کی کوشش تھی۔ حلیمہ نے ایک گھریلو جھگڑے سے تنگ آ کر اپنے جسم پر پٹرول چھڑکا اور خود کو آگ لگا دی۔
خودکشی کی اس کوشش کے نتیجے میں وہ بری طرح جھلس گئی تھی۔ یہ نوجوان خاتون پٹیوں میں لپٹی ابھی تک ہرات کے جنرل ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا اپنے گھر میں ہونے والا جھگڑا بہت ہی شدید تھا۔ یہ لڑائی اس کے شوہر کی پہلی بیوی کے ساتھ اس بات پر ہوئی کہ سوتن کے بقول حلیمہ اپنے خاوند کو افیون مہیا کرتی تھی۔
محض 20 سال کی عمر میں حلیمہ نے خود سوزی جیسا انتہائی قدم کیوں اٹھایا، اس بارے میں اس کا کہنا ہے: ’’تب میں بہت ہی غصے میں تھی۔ میں اپنی جان لے لینا چاہتی تھی۔ میں نے سوچا کہ خود سوزی سے آنے والی موت یقینی اور تیز رفتار ہو گی۔‘‘
لیکن پندرہ برس کی عمر میں شادی کے بعد گزشتہ پانچ برسوں سے اپنے خاوند کی دوسری بیوی کے طور پر زندگی گزارنے والی حلیمہ کو یہ احساس ہسپتال پہنچنے کے بعد ہوا کہ خود سوزی کے ذریعے خود کشی کی اس ناکام کوشش کے بعد اب اس کی زندگی اور بھی مشکل ہوجائے گی۔
حلیمہ کی کہانی ایک چونکا دینے والی کہانی ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کے داخلی عدم استحکام اور بدامنی کے شکار معاشرے میں نوجوان خواتین میں خود سوزی کے واقعات اب معمول کی بات بن چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغان معاشرے میں خواتین کو ابھی تک مردوں کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ عمومی سماجی برتاؤ بھی اسی سوچ کے تحت کیا جاتا ہے۔
جرمنی کی ایک طبی فلاحی تنظیم میڈیکل مونڈیال سے تعلق رکھنے والی Dibi Hareer کے مطابق افغانستان میں نوجوان خواتین میں خود سوزی کے واقعات مسلسل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میڈیکل مونڈیال کی اس خاتون ماہر کے بقول اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں رسوم، رواج اور روایات آج بھی ملکی قوانین سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔
ہرات کے جنرل ہسپتال کے Burns Unit کے ڈاکٹر عارف جلالی کے مطابق افغان خواتین میں خود سوزی کے واقعات کی عمومی شرح کا اندازہ ہرات میں نظر آ نے والے واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ عارف جلالی کہتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کے طور پر ان کے پاس سن 2002 سے خود سوزی کے بعد علاج کے لئے اس ہسپتال میں آنے والی خواتین کا ریکارڈ موجود ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے شعبے میں ہر مہینے اوسطاﹰ دس ایسی خواتین لائی جاتی ہیں، جنہوں نے خودسوزی کی کوشش کی ہوتی ہے۔ لیکن اس سال جون کے بعد سے یہ شرح یکدم قریب دوگنا ہو چکی ہے۔ ’’اب ہمارے شعبے میں ہر ماہ ایسی تقریباﹰ بیس خواتین علاج کے لئے لائی جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر جلالی نے بتایا کہ اس سال اب تک ان کے ہسپتال میں خودسوزی کرنے والی 67 خواتین علاج کے لئے لائی جا چکی ہیں۔ ان میں سے 20خواتین اتنی بری طرح جل چکی تھیں کہ ان کی زندگیاں نہ بچائی جا سکیں۔ پندرہ خواتین نے علاج مکمل ہونے سے پہلے ہی ذاتی طور پر ہسپتال سے رخصتی کا فیصلہ کیا اور آج تک واپس نہیں لوٹیں۔
عارف جلالی کے بقول سال رواں کے دوران جن باقی ماندہ خواتین کا ہرات کے جنرل ہسپتال میں علاج کیا گیا، وہ یا تو ابھی تک جاری ہے یا یہ خواتین علاج مکمل ہونے کے بعد دوبارہ اپنے گھروں کو جا چکی ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک