افغان خواتین کے حقوق کا تحفظ ’ایک طویل سفر‘
23 نومبر 2011افغانستان میں یو این کے معاون مشن (UNAMA) U.N. Assistance Mission in Afghanistan کے مطابق اس ضمن میں بہت ہی کم واقعات میں قانونی چارہ جوئی کی جارہی ہے۔ افغان دستور میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کو انتہائی سست قرار دیا گیا ہے۔ یو این مشن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے قریب 23 سو کیسز میں سے محض 155 میں ملزمان کو قانونی طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ ان میں سے بھی محض 101 کیسز میں اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے ملزمان کو سزائیں دی گئی ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کی کمشنر ناوی پِلے کا کہنا ہے کہ اگرچہ قانون کا دائرہ کار بڑھا ہے تاہم اب بھی افغان خواتین کو تشدد سے مکمل طور پر محفوظ بنانے کا سفر طویل ہے۔ افغانستان میں طالبان کے دور میں خواتین کے حقوق انتہائی محدود تھے اور 2001ء کے بعد سے کابل حکومت کی پشت پناہی کرنے والے مغربی ممالک کی ترجیحات میں خواتین کی ترقی شامل ہے۔
اس جنگ زدہ ملک میں خواتین کے تحفظ کا موجود قانون اگست 2009ء میں پارلیمان سے منظور ہوا تھا۔ اس میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کی بات کی گئی تھی جبکہ خواتین اور بچوں کو مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کرنے، تنازعات کے حل کے لیے جبری شادیاں کروانے اور خودسوزی کو قابل دست اندازی پولیس قرار دیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کے باوجود افغانستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی شخصیات نے زیادہ کام نہیں کیا۔ رپورٹ کے مطابق قتل کے بعض کیسز یا تو واپس لے لیے گئے یا اُن کا فیصلہ شرعی قوانین کے تحت کر دیا گیا۔ افغانستان کے محکمہء پولیس میں خواتین کی کم نمائندگی اور بے گھر خواتین کے لیے پناہ گاہوں کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے یو این نے ہر سطح پر آگہی کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے بالخصوص پولیس اور عدلیہ کی تربیت پر زور دیا ہے۔
یو این کی یہ رپورٹ 261 افراد کے انٹریوز کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس مارچ سے رواں برس ستمبر تک کے متعلقہ واقعات کی ریسرچ کو بنیاد بنا کر تیار کی گئی ہے۔ اس میں بعض انفرادی کیسز کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی پامالی کا ایسا ہی ایک واقعہ قندھار صوبے میں پیش آیا جہاں ایک خاتون کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور اس نے خودسوزی کرلی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: افسر اعوان