1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان سے وابستہ چھ افراد امریکی پابندیوں کی زد میں

عابد حسین
26 جنوری 2018

امریکا نے ایسے چھ افراد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جو افغان طالبان کے ساتھ وابستہ بتائے گئے ہیں۔ ان افراد کا تعلق مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک سے ہے جن میں چار افغان اور دو پاکستانی شہری شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/2rYh1
Afghanistan Taliban Kämpfer
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

حقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں پر کریک ڈاؤن نہ کرنے کے تناظر میں پاکستان کی سکیورٹی امداد میں واضح کٹوتی کا فیصلہ امریکی صدر نے تقریباً ایک ماہ قبل کیا تھا۔ اب اُسی فیصلے کے تسلسل میں امریکی حکومت نے نصف درجن افراد کو مختلف النوعیت پابندیوں میں جکڑ دیا ہے۔ پابندیوں کا اعلان امریکا کے وزارت خزانہ کے شعبہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے کیا گیا ہے۔

پاکستان: امریکی ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر ہلاک

افغانستان میں داعش کی کارروائی، اس بار نشانہ امدادی ادارہ

کابل کے لگژری ہوٹل پر حملے کی ذمه داری طالبان نے قبول کرلی

سلامتی کونسل میں پاکستان اور امریکا کی افغانستان پر لفظی جنگ

جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اُن میں دو پاکستانی اور چار افغان شہری ہیں۔ ان چھ افراد میں ایک عبد الصمد ثانی ہیں جو افغانستان کے مرکزی بینک کے سابق گورنر رہ چکے ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق ثانی اس وقت بھی افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت کی کونسل کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔

امریکی پابندیوں کی زد آنے والے ایک اور شخص کا نام عبدالقدیر بصیر عبدل بصیر بیان کیا گیا ہے۔ وہ افغان طالبان کی مجلسِ شوریٰ کے مالیاتی کمیشن کے سربراہ خیال کیے جاتے ہیں۔

USA Präsident Donald Trump unterzeichnet im Weißen Haus in Washington
پاکستان کی سکیورٹی امداد میں واضح کٹوتی کا فیصلہ امریکی صدر نے تقریباً ایک ماہ قبل کیا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Vucci

افغان طالبان کے مالیاتی کمیشن میں کئی برس تک شامل رہنے والے حافظ محمد پوپلزئی بھی نئی امریکی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف افغان صوبوں میں عسکری امور کی مشاورت میں شامل مولوی عنایت اللہ پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ مولوی عنایت اللہ کو طالبان کی پشاور شوریٰ کا رکن بتایا گیا ہے۔ بقیہ دو افراد میں فقیر محمد اور گل خان حمیدی شامل ہیں اور یہ دونوں حضرات بھی مبینہ طور پر افغان طالبان کی مالی و عسکری سرگرمیوں میں شریک ہونے کے ساتھ اعلیٰ قیادت کو اہم امور پر مشورے بھی دیتے ہیں۔

امریکی محکمہ خزانہ کے اہلکار سیگل مانڈیلکر کا کہنا ہے کہ پابندیاں عائد کرنے کا یہ عمل صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی مشرقی ایشیا کے لیے ترتیب دی گئی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ مانڈیلکر کے مطابق اس حکمت عملی سے  خطے کے اندر دہشت گردوں کی تنظیموں کی عملی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ جائیں گی۔

 امریکی اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی تنظیموں کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان پابندیوں کے تحت یہ افراد امریکا میں جائیداد کی خرید و فروخت نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ کسی بھی امریکی کو اُن سے رابطے رکھنے کی ممانعت ہو گی۔