1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان نے ہزاروں استحصالی ارکان اپنی صفوں سے نکال دیے

16 جنوری 2022

افغانستان میں حکمران طالبان تحریک نے کہا ہے کہ اس نے اپنے تقریباﹰ تین ہزار ارکان کو ناجائز اور استحصالی اقدامات کے باعث سزا کے طور پر اپنی صفوں سے نکال دیا ہے۔ یہ بات ملکی وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتائی۔

https://p.dw.com/p/45bRT
تصویر: Wali Sabawoon/AP Photo/picture alliance

ایک سرکردہ حکومتی اہلکار کے مطابق ایسا طالبان کے گزشتہ برس موسم گرما میں اقتدار میں آنے کے بعد شروع کیے گئے جواب دہی کے ملک گیر عمل کے دوران کیا گیا۔ کابل میں افغان وزارت دفاع کے ایک پینل کے سربراہ لطیف اللہ حکیمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مجموعی طور پر 2840 ارکان کو طالبان تحریک سے نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ افراد افغانستان میں اسلامی حکومت کا نام بدنام کر رہے تھے اور طالبان کی اپنی صفوں میں صفائی کے اس عمل کا مقصد مستقبل میں بہتر فوج اور مؤثر پولیس کی تشکیل ہے۔

عوام سے ماضی کے مقابلے میں نرمی کا وعدہ

طالبان نے ہندوکش کی اس ریاست سے امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں کے حتمی انخلا کے بعد اور مجموعی طور پر اپنی 20 سالہ مسلح جدوجہد کے بعد ایک بار پھر اقتدار سنبھالا تھا۔ اس موقع پر گزشتہ برس اگست میں ملک میں نئی طالبان انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے 1996ء سے لے کر 2001ء تک جاری رہنے والے پہلے دور اقتدار کے مقابلے میں اپنے طرز حکومت میں نرمی لائے گی۔

طالبان نے اپنے سخت ناقد پروفیسر فیض اللہ جلال کو رہا کردیا

ایران اور طالبان کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوششوں کی مذمت

تقریباﹰ اسی وقت طالبان کی حکومت نے ایک ایسا کمیشن بھی قائم کر دیا تھا، جس کا کام اس تحریک کے ایسے ارکان کی نشاندہی تھا، جو اس موومنٹ کے طے کردہ ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں۔

منشیات کے کاروبار اور کرپشن میں ملوث

لطیف اللہ حکیمی کے مطابق اب تک اس تحریک سے سزا کے طور پر جن ہزاروں افراد کو نکالا جا چکا ہے، ان کے خلاف استحصالی رویوں، بدعنوانی میں ملوث ہونے، منشیات کے کاروبار کا حصہ ہونے اور عام شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت جیسے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔

افغانستان: امریکی تباہ شدہ عسکری ساز و سامان کی نمائش

افغان تاجر تمام نمائشی مجسموں کے سر کاٹ دیں، طالبان کا حکم

حکیمی کے مطابق، ''ان میں سے کچھ کے تو اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ساتھ روابط بھی تھے۔‘‘ طالبان تحریک کے ان تین ہزار کے قریب ارکان کو زیادہ تر افغانستان کے 14 مختلف صوبوں میں تحریک کی صفوں سے خارج کیا گیا۔

حکیمی کے الفاظ میں، ''تحریک کی اپنی صفوں میں صفائی کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا اور اس صفائی کا دائرہ دیگر افغان صوبوں تک بھی پھیلا دیا جائے گا۔‘‘

افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی بڑھ گئی

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کا الزام ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کے کئی جنگجو افغانستان کے سابق سکیورٹی اہلکاروں کے ماورائے عدالت قتل کے مرتکب بھی ہوئے ہیں، حالانکہ طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ نے کابل پر پچھلے سال قبضے کے بعد ہر کسی کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔

م م / ب ج (اے ایف پی)