افغان طالبان کے حملوں میں 72 افراد ہلاک، 200 سے زائد زخمی
17 اکتوبر 2017سب سے خونریز حملہ افغان صوبے پکتیا میں واقع پولیس کے ایک تربیتی مرکز پر کیا گیا۔ پکتیا کے صوبائی دارالحکومت گردیز میں ڈپٹی ہیلتھ ڈائریکٹر شیر محمد کریمی کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہسپتال بھر چکا ہے اور ہم نے لوگوں سے خون کے عطیات کی درخواست بھی کر دی ہے۔‘‘ پکتیا کی صوبائی کونسل کے ایک رکن، گورنر کے ترجمان اور افغان میڈیا ذرائع نے بھی بتایا ہے کہ اس حملے میں صوبائی پولیس کا سربراہ بھی ہلاک ہو گیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گردیز میں کیے گئے اس حملے کی ذمہ داری افغان طالبان نے ایک ٹوئٹر پیغام کے ذریعے قبول کر لی ہے جبکہ ہلاک ہونے والوں میں کئی خواتین، بچے، طالب علم اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
روس طالبان کو مفت ڈیزل فراہم کر رہا ہے، رپورٹ
افغان وزارت داخلہ کے مطابق سب سے پہلے ایک خودکش حملہ آور نے اس تربیتی مرکز کے قریب خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا، جس کے بعد چند دیگر مسلح حملہ آور اس مرکز میں داخل ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے۔
بتایا گیا ہے کہ پکتیا میں پولیس ہیڈکوارٹرز کے نزدیک ہی واقع اس تربیتی مرکز میں آخری اطلاعات ملنے تک دو طرفہ لڑائی جاری تھی اور ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ طالبان کا یہ حملہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کیے گئے امریکی ڈرون حملے کے چند ہی گھنٹے بعد کیا گیا۔ اس حملے میں پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے چھبیس مبینہ جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
مسقط مذاکرات: کیا افغان طالبان کے بغیر کامیاب ہوں گے؟
اسی طرح صوبہ فراہ کے شہر شیب کوہ میں بھی گزشتہ ایک ہفتے سے طالبان اور حکومتی فورسز کے مابین لڑائی جاری ہے۔ فراہ کی صوبائی کونسل کی سربراہ جمیلہ امین نے بتایا کہ طالبان نے بارہ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا اور ان کے پاس موجود اسلحہ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
اسی طرح پیر کی شب بھی طالبان نے صوبے غزنی میں ایک منظم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تیس پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ ضلعی گورنر محمد قاسم نے بتایا کہ اس حملے میں تقریباﹰ تین سو طالبان عسکریت پسندوں نے حصہ لیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کی طرف سے فضائی حملوں میں اضافے کے بعد سے افغان طالبان نے بھی اپنے خونریز حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔