مسقط مذاکرات: کیا افغان طالبان کے بغیر کامیاب ہوں گے؟
16 اکتوبر 2017سولہ اکتوبر بروز پیر سے عمان کے دارالحکومت مسقط میں شروع والا امن مذاکرات کا یہ نیا دور اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل بھی مذاکرات کے پانچ دور منعقد کیے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک افغانستان میں قیام امن کی خاطر کوئی قابلِ قبول حل نہیں نکل سکا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے مذاکرات کا یہ چھٹا دور ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے، جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی نمایاں ہے اور دوسری طرف کابل نے ایک اہم طالبان کمانڈر پکڑنے کا بھی دعوی کیا ہے۔ اسی اثناء افغان تنازعہ کے ایک اور اہم فریق روس پر مغربی میڈیا نے یہ الزام لگایا ہے کہ وہ طالبان کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔
افغان صدر کی پاکستان کو امن مذاکرات کی دعوت
’افغان حکام کی طالبان سے تقریبا ہر روز بات چیت ہوتی ہے‘
پاکستانی حکام کی افغان طالبان لیڈروں کے ساتھ ملاقات
کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن ڈاکڑ طلعت اے وزارت نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں طالبان افغان مسئلے کے ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔ کئی غیر جانبدار بین الاقوامی ادارے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ساٹھ فیصد افغانستان پر طالبان کی عملداری ہے، تو انہیں ان مذاکرات سے باہر رکھ کر کس طرح افغانستان کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طلعت نے کہا، ’’میرے خیال میں پہلے یہ چاروں ممالک خود کوئی اتفاقِ رائے پیدا کریں گے اور پھر کوئی متفقہ فارمولہ بنایا جائے گا، جس میں یقینی طور پر وقت لگے گا۔ اعتماد کی فضا کوئی دو دن میں پیدا نہیں ہو گی لیکن اگر اس طرح کی بات چیت ہوتی رہی تو امکان ہے کہ آگے جا کر کسی مرحلے پر ان چاروں ممالک میں بالعموم اور کابل و اسلام آباد میں بالخصوص اعتماد کی فضا بحال ہوجائے گی، جس سے اس مسئلے کے حل میں مدد ملے گی۔‘‘
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و سلامتی سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین بھی طلعت اے وزارت کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طالبان کی شمولیت کے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس جنگ زدہ ملک میں امن بحال ہو سکتا۔
ان مذاکرات پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈاکڑ بکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چاروں ممالک یہ جانتے ہیں کہ طالبان اس مسئلے کے ایک اہم فریق ہیں اور ان کے بغیر مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے لیکن کیونکہ طالبان نان اسٹیٹ ایکٹر ہیں اور یہ اجلاس ریاستوں کے نمائندوں کے درمیان ہے، اس لیے انہیں دعوت نہیں دی گئی۔ لیکن میرے خیال میں تمام ممالک طالبان سے کسی نہ کسی سطح پر رابطے میں ہیں اور انہوں نے اس اجلاس کے حوالے سے بھی ان سے بات چیت کی ہو گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بکر نے کہا کہ اگرچہ طالبان اس اجلاس میں موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان کے موقف کو کوئی نہ کوئی ملک ضرور بیان گرے گا، ’’پاکستان کی افغان طالبان سے قربت ہے اور چین کی پاکستان سے قربت ہے۔ تو میرے خیال میں چین اور پاکستان طالبان نقطہء نظر کو کسی نہ کسی انداز میں اس فورم پر رکھیں گے، جب کہ امریکا اور کابل حکومت اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹ جانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم واشنگٹن اور کابل یہ جانتے ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے لچک دکھانی پڑتی ہے۔ لچک دکھائے جانے کے امکانات ہیں، جب ہی تو یہ ممالک اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔‘‘
تاہم ڈاکٹر طلعت کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ افغان طالبان کی رائے کو پیش کرے، ’’اگر پاکستان نے افغان طالبان کی رائے پیش کی تو اس پر یہ الزام لگے گا کہ وہ ان جنگجووں سے رابطے میں ہے اور ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان بہت زیادہ انفرادیت پسند ہیں اور آزاد پسندی کا رجحان رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان نے کوئی بات وہاں رکھی بھی، تو طالبان اس کو مسترد کر سکتے ہیں۔ تو میرے خیال میں پاکستان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
ان مذاکرات پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنا موقف دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نہ ہی ہمیں ان مذاکرات کی دعوت دی گئی اور نہ ہم سے کوئی مشورہ کیا گیا۔ ہمارا ان مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے لڑتے رہیں گے اور امریکا کی نئی جنگی پالیسی کا بھر پور مقابلہ کریں گے۔‘‘