افغان عوام انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے اجتناب کریں، طالبان
19 اکتوبر 2018افغانستان میں متحرک طالبان عسکریت پسندوں نے اپنے ملک کے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بیس اکتوبر کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے گریز کریں۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انتخابی عمل کو منجمد کرنے کے لیے ہر چھوٹی اور بڑی سڑکوں کو بند کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ افغانستان کے پارلیمانی انتخابات کی مذمت کرتے ہوئے طالبان نے عوام سے کہا ہے کہ وہ اس کا پوری طرح بائیکاٹ کریں۔
طالبان نے اس الیکشن کو غیر ملکی حملہ آوروں کا ’گمراہ کن ڈرامہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں شریک افراد ’حملہ آوروں کے ہمدرد‘ ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ الیکشن کے لیے نو ملین رجسٹرڈ ووٹرز کتنی تعداد میں اپنے گھروں سے باہر نکل کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ پولنگ کے لیے پچاس ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
اسی دوران افغان الیکشن کمیشن جنوبی صوبے قندھار میں انتخابات کو معطل کرنے کی سفارش حکومت سے کی ہے۔ انتخاب معطل کرنے کی وجہ طالبان کا وہ حملہ ہے، جس میں افغان صوبے قندھار میں تین اعلیٰ حکومتی اہلکار مارے گئے ہیں۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ جمعرات کے دن کیے گئے اس حملے میں صوبائی پولیس چیف جنرل عبدالرازق اور صوبائی گورنر زلمے ویسا بھی ہلاک ہو گئے۔
افغان الیکشن کمیشن کے مطابق ایسے دس اضلاع میں انتخابات نہیں کروائے جا رہے، جو پوری طرح طالبان کے زیر کنٹرول ہیں۔ ان میں پانچ اضلاع طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبے ہلمند میں واقع ہیں اور بقیہ پانچ بدخشاں، سرائے پُل، باغلان اور زابل صوبوں میں واقع ہیں۔
افغان پارلیمانی الیکشن کے انتظامات
ہفتے کے روز ہونے والے انتخابات کے لیے پورے ملک میں 2565 امیدوار میدان میں ہیں جو 249 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان میں 417 خواتین امیدوار بھی ہیں۔ ووٹ ڈالنے کے تینتیس افغان صوبوں میں انیس ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کر دیے گئے ہیں۔ گیارہ ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن صرف مردوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں جب کہ خواتین کے 74 سو پولنگ اسٹیشن وقف ہوں گے۔
پولنگ مٹیریل ان انتخابی مراکز پر پہنچانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکومتی سکیورٹی کے اداروں کے ساتھ مل کر پولنگ اسٹیشنوں کے عملے اور ووٹرز کے ہر ممکن تحفظ کے اقدامات کو حتمی شکل دے دی ہے۔ رائے دہی مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہو گی۔
بظاہر الیکشن کے دوران سکیورٹی کی مکمل ذمہ داری افغان سکیورٹی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ کسی غیر معمولی صورت حال میں امریکی فوج بھی افغان سکیورٹی کی مدد کو کابل حکومت کی درخواست پر آ سکتی ہے۔ انتخابی عمل کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے افغانستان میں جاری ریزولیوٹ اسپورٹ مشن کی مکمل حمایت و تعاون حاصل ہے۔
الیکشن سے قبل کی بیس روزہ انتخابی مہم کے دوران کم از کم دس امیدواروں کو عسکریت پسند اپنے حملوں میں ہلاک کر چکے ہیں۔ ایسے حملوں میں چونتیس عام شہری بھی مارے گئے تھے۔ کئی دوسرے امیدواروں کے انتخابی جلسوں اور ریلیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن وہ ایسے حملوں میں محفوظ رہے ہیں۔