افغان مشن میں شرکت برقرار رہے گی، انگیلا میرکل
16 اپریل 2010جرمن فوجیوں پر حملہ شمالی صوبے باغلان میں ہوا۔ اس حملے میں پانچ فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ اسے رواں برس میں غیرملکی فوجیوں پر ہونے والا اپنی نوعیت کا خطرناک ترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جرمن وزارت دفاع نے برلن میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے نام خط میں خیال ظاہر کیا ہے کہ شدت پسندوں نے فوجیوں کے گروپ پر راکٹ فائر کیا۔ ان میں سے بعض فوجی ایک بکتر بند گاڑی میں تھے۔
واضح رہے کہ جرمنی افغان مشن کے لئے فوجی فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ وہاں شمالی علاقوں میں اس کے چار ہزار سے زائد فوجی تعینات ہیں جبکہ 2002ء سے اب تک وہاں ہلاک ہونے والے جرمن فوجیوں کی تعداد 43 ہے۔
جرمن عوام کی اکثریت میں یہ عسکری مشن غیرمقبول ہے۔ تاہم عوامی حمایت میں کمی کے باوجود چانسلر میرکل نے افغان مشن میں جرمنی کی شرکت جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ دورہ امریکہ کے موقع پر انہوں نے اپنے مزید فوجیوں کی ہلاکتوں پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مغرب کی تمام جمہوری طاقتوں کی سیکیورٹی افغانستان میں کامیابی پر منحصر ہے۔
دوسری جانب جمعرات ہی کو افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں ایک کار بم دھماکہ بھی ہوا، جس کے نتیجے میں تین غیرملکی شہری اور ان کے افغان گارڈز ہلاک ہوئے۔ واضح رہے کہ امریکی فوج کی جانب سے قندھار میں شدت پسندوں کے خلاف بڑی کارروائی متوقع ہے۔
قندھار صوبائی کونسل کے سربراہ احمد ولی کرزئی نے بتایا: ’اس حملے میں ایک سیکیورٹی کمپنی کو نشانہ بنایا گیا۔ کچھ ہلاکتیں ہوئی ہیں، زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں میں غیرملکی بھی شامل ہیں جبکہ سیکیورٹی گارڈز بھی ہلاک ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق تین غیرملکی ہلاک اور نو زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم خبررساں ادارے روئٹرز نے پولیس اہلکار محمد نبی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حملے میں سات غیرملکی ہلاک ہوئے ہیں، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ برطانوی ہیں۔ دیگر دو سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اس حملے میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد چھ ہے، جن میں سے تین غیرملکی ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عابد حسین