افغان مشن کو مشکل وقت سے گزرنا ہو گا، اوباما
13 مئی 2010وائٹ ہاؤس میں حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد ان کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں باراک اوباما نے کہا، ’میں نے یہ حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں لڑائی میں بہت شدت آنے والی ہے۔
دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے، جب اتحادی فورسز آئندہ ماہ قندھار میں طالبان کے خلاف ایک بڑی کارروائی کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے مہم شہر کے بیرونی اضلاع میں پہلے ہی جاری ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نو سالہ افغان مشن میں یہ خطرناک ترین لڑائی ہوگی۔
قندھار آپریشن کے لئے اوباما کی جانب سے قبل ازیں اعلان کردہ 30 ہزار اضافی فوجیوں کے افغانستان پہنچنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ افغان مشن میں ہونے والی پیش رفت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کے ساتھ ہی اس جنگ میں درپیش پیچیدہ چیلنجز سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔
اوباما نے بدعنوانی کے الزامات پر گزشتہ کچھ عرصے میں کرزئی حکومت پر واشنگٹن کی تنقید کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے مشن میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ مایوس کن حالات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، ایسا وقت بھی آئے گا جب واشنگٹن اور کابل حکومتوں میں اختلاف دکھائی دے، لیکن موجودہ حالات کا سامنا کرنے کے لئے ہماری حکمت عملی ایک ہی ہے۔‘
اوباما نے یہ بھی کہا کہ جولائی 2011ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل شروع کرنے کے لئے انہوں نے جو وعدہ کیا تھا، وہ اسے پورا کرنے کے لئے پرامید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ تشدد کا راستہ ترک کرنے والے طالبان سے مذاکرات کے لئے کرزئی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کی حامد کرزئی سے ملاقات کا مقصد واشنگٹن اور کابل حکومتوں کے درمیان اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دکھانا بھی تھا کہ ان کے اختلافات پیچھے رہ گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ان مذاکرات کا مقصد افغان رہنما کو یہ یقین دلانا تو تھا ہی کہ امریکہ کرزئی حکومت کے ساتھ طویل المدتی تعلق چاہتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات چیت کا ایک مقصد امریکی عوام پر یہ ظاہر کرنا بھی تھا کہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ ناگزیر ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عابد حسین