1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مشن کے لئے اضافی فوج اور رابرٹ گیٹس کا موقف

رپورٹ:عابد حسین، ادارت:ندیم گِل6 اکتوبر 2009

افغانستان کے اندر سرگرم انتہاپسند طالبان کی سرگرمیاں کچھ علاقوں میں خاصی زور پکڑ جکی ہیں۔ اُن کی مکمل سرکوبی کے لئے افغانستان میں اعلیٰ امریکی جنرل نے اوباما انتظامیہ سے مزید ہزاروں فوجیوں کی درخواست کی ہے ۔

https://p.dw.com/p/Jyd0
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹستصویر: AP
US General Stanley McChrystal
افغانستان میں تعینات اعلیٰ امریکی فوجی جنرل، اسٹینلے میک کرسٹلتصویر: AP

افغان صوبے نورستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے ایک بڑے حملے میں آٹھ امریکی فوجیوں سمیت متعدد افغان سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ امریکی حکومت جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی درخواست پر غور کرتے ہوئے مزید ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دینے میں کوئی تاخیر نہیں کرے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اِس کے برعکس امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا کہنا ہے کہ مزید فوجیوں کی افغانستان روانگی ایک مشکل اور پیچیدہ سوال ہے، جس کا فوری طور پر جواب نہیں دیا جا سکتا۔

گیٹس کے خیال میں مزید فوجی دستوں کی تعیناتی کے لئے ابھی کچھ اور وقت درکار ہے تبھی کوئی فیصلہ کیا جائے گا کہ اضافی دستے روانہ بھی کئے جائیں یا نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ نے مزید فوجی کمک روانہ نہ کی تو پھر وہ یقیناً اپنے فوجیوں کی واپسی کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرے گا۔ بعض کا خیال ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے نیٹو اتحادی بھی امریکی فوجیوں کے ہمراہ مزید فوجیوں کو روانہ کرنے کی بابت عملی مظاہرہ کریں کیونکہ صدر باراک اوباما پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی جنگ صرف امریکہ کی نہیں بلکہ عالمی امن کی جنگ ہے۔ امریکی فوج کے مزید ہزاروں فوجیوں کی افغانستان تعیناتی کے حوالے سے رابرٹ گیٹس کا کہنا ہے کہ اوباما دورِ صدارت کا یہ انتہائی اہم فیصلہ ہو گا۔ امریکی وزیر دفاع کے مطابق صدر اوباما افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے ایک مربوط حکمت عملی کے خواہشمند ہیں۔ افغانستان کے اندر پیدا شدہ صورت حال کا رابرٹ گیٹس کو بخوبی اندازہ ہے اور اِس کو وہ تشویشناک حد تک پریشان کن خیال کرتے ہیں۔ میک کرسٹل نے افغانستان میں تعینات غیر ملکی فوجیوں کو ضرورت سے کم قرار دیتے ہوئے ایک نئی اور ڈرامائی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ ہفتے کے دوران اپنے خصوصی طیارے ایئر فورس ون میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں افغانستان میں تعینات اعلیٰ امریکی جنرل میک کرسٹی سے ملاقات کی تھی۔ اِس ملاقات کے دوران مستقبل کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ فوجوں کی تعیناتی کے معاملے پر بھی تفصیلاً بات چیت ہوئی تھی۔ دوسری جانب امریکہ کے عسکری اور دفاعی حلقوں میں مزید فوجیوں کی تعیناتی کی بحث جاری ہے۔ صدر اوباما نئے فوجیوں کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے مشیروں کی باقاعدہ میٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ کچھ دنوں میں کوئی فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔

Deutschland Flash-Galerie Woche 39 Afghanistan Bundeswehr
افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد اتحادی فوجی تعینات ہیںتصویر: AP

افغانستان کے حوالے سے امریکی حکومت کی انتظامیہ اِن دنوں خاص طور پر محتاط انداز اپنائے ہوئے ہے۔ رابرٹ گیٹس کی طرح امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جم جونز کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں رائے زنی کے دوران محتاط انداز وقت کی ضرورت ہے۔ گیٹس نے امریکی فوج کی ایسو سی ایشن کی سالانہ میٹنگ کے دوران بھی کہا کہ افغانستات میں فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں بحث ہر ذی شعور شخص شامل ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنے رائے اگر صدر کو دینا چاہتا ہے تہ وہ یہ کسی عوامی فورم پر نہ کرے بلکہ مخصوص اور پرائیویٹ انداز میں اپنی رائے صدر کو فراہم کرے۔ اِس مناسبت سے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جم جونز نے افغانستان میں اعلیٰ امریکی جنرل کے بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ بھی مناسب اور طے شدہ طریقہ کار کے تحت صدر تک پہنچنے چاہئے تھے۔ ماہرین کے خیال میں یہ جنرل سٹینلے میک کرسٹل کی ایک طرح سے سرزنش بھی ہے۔ جنرل میک کرسٹل نے افغان صورت حال کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے چالیس ہزار تک اضافی فوجی طلب کئے ہیں۔ اُن کی اِس ضرورت کو برطانوی فوج کے نئے سربراہ جنرل ڈیوڈ رچرڈز نے اپنے ایک حالیہ انٹر ویو میں انتہائی اہم قرار دیا تھا اور اِس کی حمایت کی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید