افغان میڈیا کی توپوں کا رُخ پاکستان کی طرف
8 جولائی 2021افغانستان میں بیشتر ذرائع ابلاغ اور سیاسی مبصرین اپنے ملک میں موجودہ بدامنی کا الزام اسلام آباد حکومت پر عائد کر رہے ہیں۔ الزام یہ عائد کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کی پشت پناہی اور عسکریت پسندوں کو مزید علاقوں پر قبضہ کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔
یہ کوئی نئے الزامات نہیں ہیں۔ افغان حکام ماضی میں بھی کہتے آئے ہیں کہ پاکستان طالبان کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے لیکن ان دنوں افغان میڈیا کا سب سے بڑا موضوع ہی پاکستان بنا ہوا ہے۔ ایک افغان رکن پارلیمان عبدالستار حسینی کا حال ہی میں ایک مقبول ٹاک شو میں کہنا تھا، ''آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان ہم پر حملہ آور ہے۔ یہ طالبان نہیں ہیں، جن سے ہم جنگ کر رہے ہیں، ہمیں پاکستان کی پراکسی جنگ کا سامنا ہے۔‘‘ عبدالستار حسینی کا مزید کہنا تھا، ''طالبان کا افغانستان کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے اور ہم پاکستان کا منصوبہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘‘
بدگمانی اور غلط فہمیاں
پاکستان بار بار ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے لیکن بہت سے افغان پاکستان کے اس سرکاری موقف پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستانی حکام کے لیے اس بیانیے کو تبدیل اور افغان میڈیا کو راضی کرنا ایک مشکل کام بنتا جا رہا ہے۔
کابل کے اریانا نیوز ٹی وی چینل کے سربراہ شریف حسن یار کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''افغانستان اور پاکستان کے تعلقات چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے تناؤ کا شکار ہیں۔ بڑے شہروں میں بسنے والے زیادہ تر افغانوں کا پاکستان کے بارے میں منفی نظریہ ہے کیونکہ انہیں یاد ہے کہ 1990 کی دہائی میں اسلام آباد نے طالبان اور مجاہدین کی حمایت کی تھی۔‘‘
سابق صدارتی ترجمان نجیب اللہ آزاد کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے بارے میں تاثر حقیقت پر مبنی ہے، ''افغان ماہرین جو الزامات عائد کر رہے ہیں، ان میں سے کئی تو پاکستانی حکام نے خود قبول بھی کیے ہیں۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے خود تسلیم کیا تھا کہ اسلام آباد طالبان کی حمایت کر رہا تھا۔ سن دو ہزار پندرہ میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے، جب وہ اپوزیشن میں تھے، ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے ہسپتال میں زخمی طالبان کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔‘‘ آزاد کا مزید کہنا تھا، ''حال ہی میں پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اعتراف کیا تھا کہ طالبان ممبران کے اہل خانہ پاکستان میں رہ رہے ہیں اور زخمی اور ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کو افغانستان سے پاکستان لایا گیا تھا۔‘‘
'جنگ کی لکیریں کھینچی جا چکی ہیں‘
نیٹو افواج کے جانے کے بعد اور طالبان کی پیش قدمی سے افغانستان میں خانہ جنگی کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ افغان امور کے ممتاز ماہر احمد رشید نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ افغانستان میں انتشار کی صورتحال ''پڑوسی ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ افغانستان کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
احمد رشید کا مزید کہنا تھا، ''جب تک پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس ادارے طالبان کو جائے امان فراہم کرتے رہیں گے، وہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بات چیت میں شریک نہیں ہوں گے۔‘‘ موجودہ صورتحال میں جنگ کی لکیریں کھینچی جا چکی ہیں اور نئے اتحاد تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں ہی میڈیا کی جنگ بھی زوروں پر ہے۔
کیا تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک جغرافیائی اور ثقافتی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور افغانستان میں شورش پاکستان میں بھی پھیل سکتی ہے۔ اریانا نیوز ٹی وی چینل کے سربراہ شریف حسن یار کا کہنا تھا، ''سول سوسائٹی کے ممبران اور دونوں ممالک کے صحافیوں نے اعتماد کو بڑھانے کے لیے کوششیں کیں لیکن یہ دراصل حکومتوں کا کام ہے۔‘‘ پاکستان مخالف میڈیا بیانیے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ''افغان میڈیا اکثر تبصروں کے لیے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرتا ہے لیکن پاکستانی سفارت کار جواب نہیں دیتے۔‘‘
نجیب اللہ آزاد کے مطابق پاکستان موجودہ صورتحال کا مقابلہ سفارتی طریقے سے کرنا چاہ رہا ہے، ''پچھلے کچھ مہینوں میں اعلیٰ افغان عہدیداروں نے پاکستان کے دورے کیے لیکن زمینی صورتحال بالکل بھی نہیں بدلی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''افغانستان میں اپنا تشخص بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو عسکریت پسندوں کی پشت پناہی روکنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوسری جانب اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ جب تک کابل پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے باز نہیں آتا، تب تک دونوں ممالک کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔
شامل شمس، مسعود سیف اللہ (ا ا / م م)