افغان کسان پوست کی کاشت پر پابندی سے مالی بحران کا شکار
5 اکتوبر 2024پوست کی کاشت کے مرکز افغان صوبے ہلمند سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ کسان اسد اللہ، گزشتہ 20 سالوں سے پوست کی کاشت کر رہے تھے۔ وہ ہر سیزن میں چار ایکڑ زمین پر فصل سے تقریباﹰ 250000 سے 500000 افغانی تک کماتے تھے۔ تاہم افیون اور ہیروئن بنانے کے لیے استعمال ہونے والے اس پودے کی کاشت پر طالبان حکومت نے پابندی عائد کردی۔ جس کے سبب اسد اللہ شدید مایوسی کا شکار ہیں۔
انہوں نے نے بتایا کہ ان کا سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ان کے پاس رات کے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ مشکل سے 25000 افغانی کما پاتے ہیں۔
افغانستان پوست پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم 2022 میں طالبان سپریم کمانڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے اس کی کاشت پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد سے اس کی فصل کی پیداوار میں 95 فیصد کمی آگئی۔
چالیس سالہ لالا خان کو جب یہ یقین ہو گیا کہ حکام پوست کی کاشت پر پابندی کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے کپاس کی کاشت شروع کردی۔ تاہم اس کے بعد ان کی سالانہ آمدنی میں کمی آگئی۔
ان کا کہنا تھا، ’’پہلے ہم ہر تین دن میں ایک بار گوشت کھاتے تھے، اور اب ہم مہینے میں ایک مرتبہ گوشت کھا پاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس فصل کی کاشت پر پابندی کے سبب ان کی آمدنی میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے طور پر انہیں صرف ’’آٹے اور کھاد کی ایک ایک بوری‘‘ دی گئی جو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
ایک اور کسان احسان اللہ کا بھی موجودہ حالات پر اپنے غصے اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم اپنی روزمرہ کی ضروریات ادھار لیکر پوری کرتے ہیں۔ فصل تیار ہونے کے بعد جب ہم ادھار کی رقم ادا کرتے ہیں تو ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا۔‘‘
ایک اور گاؤں خمارئی میں واقع ایک مسجد کے امام بسم اللہ نے بتایا کہ پہلے اس علاقے کی 80 فیصد زمین پوست کی کاشت کے لیے استعمال ہوتی تھی جبکہ 20 فیصد گندم، مکئی، پھلیاں اور کپاس کی کاشت کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
افغانستان میں عموماً ایک ہی خاندان میں افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور ان خاندانوں کے مجموعی اخراجات کا ایک بڑا حصہ لڑکیوں کے جہیز پر خرچ ہوتا ہے۔
بسم اللہ سمیت کچھ دیگر کسانوں کے پاس پوست کی آخری فصل سے حاصل ہونے والا مادہ ابھی تک موجود ہے۔ یہ مادہ افیون کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے اور ان لوگوں نے اسے نقد رقم کے متبادل کے طور پر محفوظ کر رکھا ہے۔
بسم اللہ نے اے ایف پی کو بتایا ’’ہم قیمت کے بڑھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ اسی سے جہیز کی ادائیگی کر سکیں گے۔‘‘
صوبہ قندھار کے ضلع میوند میں واقع افیون مارکیٹ اب ویران ہے جس کے باعث 40 سالہ ہنر نے اب چینی، تیل، چائے اور مٹھائیاں فروخت کرنی شروع کر دی ہیں۔
ان کا کہنا ہے امیر کے حکم کی تعمیل ہم پر لازم ہے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ پابندی کے باعث لوگ شدید مشکلات سے دوچار ہیں اور وہ حکام سے بغاوت کرسکتے ہیں۔
مئی میں افغان صوبے بدخشاں میں کسانوں اور انسداد منشیات فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کئی اموات ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی جس میں کسان طالبان کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔
عالمی تنازعات اور بحرانوں پر تحقیق کرنے والے انٹرنیشنل کرائسز گروپ (آئی سی جی) کی رواں ماہ جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق طالبان کی منشیات کے خلاف مہم نے افغانستان کو اقتصادی طور پر شدید متاثر کیا ہے جس کا شمار دنیا کے بڑے غیر قانونی منشیات فراہم کنندگان میں ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ طالبان اس پابندی کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر سختی سے قائم ہیں۔ تاہم اقتصادی مشکلات اس کے مستقل نفاذ میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہیں۔
اس گروپ کے مطابق اگرچہ کسانوں کو انار، انجیر، بادام، پا پستے جیسی منافع بخش فصلیں پیدا کرنے میں مدد کے لیے بڑی سرمایہ کاری درکار ہے، لیکن یہ ابھی تک قلیل مدتی حل ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ حکام کی تمام تر توجہ اب زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میں ملازمتوں کی تخلیق پر ہونی چاہیے۔
ح ف / ج ا (اے ایف پی)