افغانستان، ایران اور بھارت سے تجارتی روابط بڑھنے لگے
31 جولائی 2017یہ سرحدی تجارتی راستے مسلسل کشیدگی کے باعث اکثر بند کردیے جاتے ہیں۔ اس بندش کا نقصان دونوں اطراف کے تاجروں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں تجارت کا حجم بڑھ رہا تھا اور سال 2015 کے دوران دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالرز سے زیادہ تھا۔
تاجر برادری کو یقین تھا کہ آئندہ دو سالوں میں پاک افغان تجارت کے حجم کو پانچ ارب ڈالرز تک پہنچایا جائے گا۔ تاہم حجم میں مسلسل گراوٹ سے مایوس ہو کر افغان تاجر ایران ،بھارت ، چین اور وسط ایشیا کے ممالک کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے ڈائریکٹر ضیاالحق سرحد ی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس تجارت کے حجم میں مزید کمی کے خدشات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی حکومت نے ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹروں کیلئے ویزے کی شرط رکھی ہے۔ بدلے میں افغانستان بھی یہ شرط عائد کرسکتا ہے۔‘‘
ضیاالحق سرحدی نے مزید کہا کہ دیگر ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی جانب سے درآمدی ٹیرف میں اضافہ بھی تجارت میں کمی کا باعث بنے گا۔
دوسری جانب افغان تاجر پاکستان کے ساتھ سرحدوں کی آئے دن کی بندش سے تنگ آ کر اب ایران، ترکی اور بھارت سے اشیائے ضرورت منگوا رہے ہیں جو انہیں مہنگی پڑ رہی ہے۔
اس حوالے سے پشاور میں تجارت کے پیشے سے وابستہ افغان باشندے مجیب الرحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’افغانستان میں عوام کی قوتِ خرید نہ ہونے کے برابر ہے ایسے میں وہ مہنگی اشیا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس طرح افغان تاجروں کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پاکستان میں رہنے کی وجہ سے لاکھوں افغان باشندے پاکستانی اشیاء سے مانوس ہیں اور وہ انہی اشیاء کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان کی ایران اور بھارت کے ساتھ تجارت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایران کے ساتھ تجارت ایک اعشایہ پانچ ارب ڈالرز سے بڑھ کر دو ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب ایران کے افغانستان کے ساتھ ریلوے ٹریک، زرانج دلارام شاہراہ کی تعمیر اور چاہ بہار بندرگا ہ کے باعث افغانستان کا ایران اور بھارت کے ساتھ تجارت کا حجم بڑھ رہا ہے۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے ضیا الحق سرحدی کا کہنا ہے، ’’پاکستان، افغانستان کے ساتھ تجارت پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ خاص طور پر بیورکریسی اس میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ پاکستان اور بالخصوص پختونخوا کی تجارت کا دارومدار افغانستان پر ہے۔ یوں بھی اگر افغانستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ رہے تو پاکستان وسط ایشیا اور اُسکے راستے یورپ کے ساتھ تجارت نہیں کرسکے گا۔ اور اسکا نقصان صرف پاکستانی اور افغان باشندوں کو ہوگا ‘‘
خیال رہے کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہونےوالے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے میں ترمیم کی ہے جسکے تحت کراچی سے ریلوے کی بجائے این ایل سی یا نیشنل لوجیسٹک سیل کے ذریعے تجارتی سامان طورخم اور چمن بارڈر تک پہنچایا جائیگا۔ یہ صورت حال افغان تاجروں اور پاکستان میں کسٹم کلیئرنس ایجنٹس کیلئے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔