افغانستان جنگ کے بارے ميں امريکی خفيہ دستاويزات پر پاکستان ميں ردعمل
30 جولائی 2010اس ہفتے بھارت کا دورہ کرنے والے برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی برآمد کرنے کی اجازت نہيں دی جانا چاہئے۔ افغان صدر کرزئی نے تو افغانستان کے باہر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف مغربی فوجی کارروائی تک کا مطالبہ کيا ہے اور اِس سے اُن کی مراد واضح طور پر پاکستان ہے۔
تاہم پاکستانی حکومت ان تمام الزامات کو بے بنياد کہتے ہوئے مسترد کر رہی ہے۔ ملک ميں عام تاثر يہ ہے کہ خفيہ امريکی دستاويزات ميں حقيقتاً کوئی نئی معلومات نہيں ہيں۔ پاکستان کے ايک معروف انگریزی روزنامے ڈان کے کالم نگار اور صحافی کامران شفيع نے کہا:
’’ہم ان انکشافات کی بہت سی باتوں کو پہلے ہی سے جانتے ہيں۔ صرف ايک بات نئی ہے کہ آئی ایس آئی کو بھی صدر کرزئی کے قتل کی ايک سازش ميں ملوث کہا گيا ہے۔ ليکن اس کا بھی کوئی ثبوت نہيں ہے۔‘‘
شفيع نے کہا کہ يہ بات بہت عرصے سے معلوم ہے کہ افغانستان ميں طالبان اور اُن کے اتحاديوں سے پاکستانی فوج کے اچھے تعلقات ہيں۔ پاکستانی فوج اور آئی ايس آئی کھل کر طالبان عسکريت پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرانے کی پيشکش بھی کر چکے ہيں۔ کامران شفيع کہتے ہیں: ’’وہ کھل کر کہتے ہيں کہ وہ حقانی گروپ سے بات چيت کر رہے ہيں۔ يہ پوری دنيا جانتی ہے۔ تو پھر آئی ايس آئی يا ہمارے سکيورٹی حکام کے طالبان کے ساتھ رابطے آخر کون سا بڑا راز ہيں؟‘‘
بہت سے پاکستانيوں کا خيال ہے کہ خفيہ امريکی دستاويزات کے انکشاف کے لئے جان بوجھ کر يہ وقت چنا گيا ہے کيونکہ اس وقت پاکستان پر شمالی وزيرستان کے حقانی نيٹ ورک کے خلاف کارروائی ميں اضافے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم سلامتی امور کی معروف تجزيہ نگار عائشہ صديقہ کا خيال ہے کہ کرزئی اور کيمرون کے سخت بيانات کے باوجود دوسرے ممالک سے پاکستان کے طویل المدتی تعلقات متاثر نہيں ہوں گے: ’’امريکہ کو اب بھی اپنی کارروائيوں کے لئے پاکستانی فوج کی مدد درکار ہے۔ اُس کے بغير امريکی افغانستان کے سلسلے ميں کوئی حقيقی پيش رفت حاصل نہيں کر سکتے۔‘‘
کامران شفيع کو افسوس ہے کہ تازہ انکشافات کے بعد پاکستان ميں افغان پاليسی کے بارے ميں کسی کھلی بحث کا آغاز نہيں ہوا حالانکہ يہ انتہائی ضروری ہے۔
رپورٹ: ٹوماس بيرتھلائن / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک