افغانستان سے انخلا تاریخ کا مشکل ترین آپریشن ہے، جو بائیڈن
21 اگست 2021وائٹ ہاؤس میں افغانستان کی صورت حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا، ’’تاریخ کے سب سے بڑے اور مشکل ترین فضائی انخلا میں چودہ اگست کے بعد سے اب تک 13 ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا جا چکا ہے اور کوئی بھی امریکی شہری جو امریکا واپس آنا چاہتا ہے، ہم اسے لا کر رہیں گے۔‘‘
امریکی صدر چھٹیوں پر تھے، تاہم وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے چھٹیاں مختصر کر کے واپس آ گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پچاس سے پینسٹھ ہزار کے درمیان امریکی اتحادیوں کے انخلا کے بارے میں بھی امریکی فوج پر عزم ہے تاہم، ’’امریکی شہریوں کا انخلا ہماری پہلی ترجیح ہے۔‘‘
صدر بائیڈن کا کہنا تھا، ’’غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے، انخلا کا یہ مشن خطرناک ہے۔ اس میں ہماری مسلح افواج کے لیے بھی خطرات شامل ہیں اور یہ بہت مشکل حالات میں کیا جا رہا ہے۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں امریکی صدر نے کہا، ’’یہ تاریخ کا سب سے بڑا اور مشکل ترین فضائی انخلا میں سے ایک ہے۔ میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا ہو گا یا پھر یہ کسی نقصان کے خطرے کے بغیر ہی ہو جائے گا۔ لیکن کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے میں آپ کو اس بات کی یقین دہانی کرا سکتا ہوں کہ ہم اس کے لیے تمام ضروری ذرائع بروئے کار لائیں گے۔‘‘
امریکی صدر نے کہا کہ طالبان امریکی انخلا کی کوششوں میں کوئی رخنہ نہیں ڈال رہے ہیں اور جس کے پاس بھی امریکی پاسپورٹ ہے وہ اسے ایئر پورٹ جانے دے رہے ہیں۔
تاہم جمعے کے روز ہی ان کے وزير دفاع لوائیڈ آسٹن نے ایک بریفنگ کے دوران اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ افغانستان چھوڑنے کی کوشش کرنے والے امریکیوں کے ساتھ طالبان مار پیٹ بھی کر رہے ہیں۔
طالبان کی یقین دہانی
طالبان نے امریکا کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ جو افغان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں انہیں 31 اگست کے بعد بھی اس کی اجازت ہو گی جب امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو چکا ہو گا۔ تاہم امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس بارے میں محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔
پرائس کا کہنا تھا، ’’ان کے الفاظ ایک چیز، تاہم اہمیت تو صرف اس بات کی ہے کہ وہ کرتے کیا ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ جولائی میں انخلا کے آپریشن کے بعد 18 ہزار افراد کا انخلا کیا گیا جس میں 14 اگست کے بعد 13 ہزار افراد کو نکالا گيا ہے۔
طالبان کے اگلے اقدام کیا ہو سکتے ہیں؟
کابل میں طالبان قیادت اب بھی اس بات کے لیے صلاح و مشورے میں مصروف ہے کہ نئی حکومت کس شکل و صورت کی قائم کی جائے۔ چند روز قبل طالبان کے ایک رہنما نے البتہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جمہوری طرز کی حکومت نہیں بلکہ ایک شوری کونسل ہو سکتی ہے۔
تاہم ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس حکومت میں طالبان کے علاوہ دیگر دھڑے شامل ہوں گے کہ نہیں۔ کینیڈا اور فرانس کے لیے سابق افغان سفیر عمر صمد نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کی اور کہا کہ ابھی تصویر واضح نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں اب بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ خالص طالبان کی پرانی اسٹائل میں اقتدار پر قابض ہوں گے یا پھر وہ ان لوگوں کے لیے بھی موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں جو حکومت میں شامل ہونا چاہیں گے۔‘‘
عمر صمد نے کہا کہ عالمی امداد بھی اس بات کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے کہ طالبان کیا راستہ اپنائیں گے۔ ان کے مطابق طالبان کو، ’’بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی سطح پر لچک دکھانا پڑے گی۔‘‘
اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثّانی نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں پر امن اقتدار کی منتقلی پر زور دیا ہے۔ قطر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک ’جامع سیاسی معاہدہ کرنے‘ پر زور دیا ہے۔
نیٹو کا موقف
نیٹو ممالک کے وزرا خارجہ نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے موجودہ بحرانی صورت حال کے پیش نظر اس ملک کو دی جانے والی تمام امداد معطل کی جا رہی ہے۔ نیٹو نے افغانستان کی نئی حکومت سے بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
نیٹو نے افغانستان کے تمام گروہوں سے ایک ایسی نئی حکومت تشکیل دینے کی بات کہی ہے جس میں خواتین اور اقلیتی طبقے کے لوگ بھی شامل ہوں۔ مشترکہ بیان میں کہا گيا ہے کہ غیر ملکیوں سمیت جو افغان باشندے بھی ملک چھوڑنا چاہتے ہوں انہیں نکلنے کا محفوظ راست فراہم کیا جانا چاہیے۔
ص ز/ ش ح ( اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)