افغانستان: توہین مذہب کے الزام میں فیشن ماڈل کی گرفتاری
9 جون 2022افغانستان میں طالبان کے کنٹرول والی خفیہ ایجنسی نے دو روز قبل ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی، جس میں معروف افغان ماڈل اجمل حقی ہتھکڑیوں میں جکڑے نظر آئے۔ اجمل حقی ملک میں اپنے فیشن شوز، یوٹیوب کلپس اور ماڈلنگ ایونٹس کی وجہ سے کافی معروف ہیں۔
سوشل میڈیا میں بڑے پیمانے پر گردش کرنے والی ایک اور متنازعہ ویڈیو میں اجمل حقی کو اپنے ایک ساتھی غلام سخی کے ساتھ ہنستے ہوئے دکھایا گیا ہے، جبکہ ویڈیو میں غلام سخی عربی میں قرآنی آیات کی مزاحیہ انداز میں تلاوت کر رہے ہیں۔
ان کی گرفتاری اسی متنازعہ ویڈیو کے بعد عمل میں آئی اور طالبان نے ان گرفتاریوں کے بعد حقی اور ان کے ساتھیوں کی ایک ویڈیو بھی جاری کی، جس میں وہ ہلکے بھورے رنگ کے جیل کے لباس میں کھڑے ہیں اور طالبان حکومت اور مذہبی علماء سے معافی مانگ رہے ہیں۔
اس ویڈیو کے ساتھ ہی دری زبان میں ایک پیغام بھی پوسٹ کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ، ’’کسی کو بھی قرآنی آیات یا پیغمبر اسلام کے اقوال کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
یہ واقعہ منگل کے دن کا ہے اور پھر بدھ کے روز انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان جاری کیا، جس میں طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ حقی اور ان کے ساتھیوں کو ’’فوری اور غیر مشروط طریقے سے‘‘ رہا کر دیں۔
جنوبی ایشیا میں ایمنسٹی کی مہم چلانے والی سمیرا حمیدی نے ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اجمل حقی اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے کر اور انہیں معافی مانگنے پر مجبور کر کے طالبان نے ’’آزادی اظہار کے حق پر ایک کھلا حملہ‘‘ کیا ہے۔ اس بیان میں طالبان کی جانب سے، ’’ایسے لوگوں پر مسلسل سنسر شپ کی بھی مذمت کی گئی جو آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اس حوالے سے جب کابل میں طالبان حکام سے تبصرے کی درخواست کی گئی تو فوری طور پر اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ فیشن ماڈل اجمل حقی اور ان کے ساتھیوں کو طالبان کے زیر انتظام عدالت میں کس طرح کے مقدمے کا سامنا ہے۔ گرفتار شدہ ماڈلز کے اہل خانہ کی جانب سے بھی فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
طالبان نے گزشتہ اگست میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے آخری ہفتوں کے دوران کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے وہ اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح کے مطابق اس طرح کے اقدامات کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ان کے بعض اقدامات پر شدید نکتہ چینی بھی ہوتی رہی ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اقتدار پر قبضے کے بعد سے ہی طالبان ’’ہراس شخص پر دھمکیاں، ایذا رسانی اور تشدد کا استعمال کر رہے ہیں جس نے انسانی حقوق یا جدید اقدار کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس میں دیگر افراد کے علاوہ، انسانی حقوق کے محافظ، خواتین کارکنان، صحافی، اور تعلیمی اداروں کے اراکین خاص طور پر شامل ہیں۔‘‘
ایمنسٹی نے طالبان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک حقیقی اتھارٹی کے طور پر، ’’بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کریں اور بلا تفریق اظہار رائے کی آزادی کے حق کا احترام کریں۔‘‘
ص ز / ج ا (اے پی)