افغانستان ميں دھماکے آزادی صحافت پر حملہ ہیں، تبصرہ
1 مئی 2018عام شہریوں کو ہلاک کرنا ایک جنگی جرم ہے لیکن شام، یمن، عراق، نائجیریا، صومالیہ اور کانگو جیسے ممالک میں ایسے قوانین کی پروا کون کرتا ہے؟ افغانستان میں بھی عام شہریوں کو ہلاک کرنا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔ لوگوں کو خاموش کرانے اور فرمانبردار بنانے کے لیے ان کو تشدد اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صحافی بھی عام شہری ہوتے ہیں اور جب یہ خاموش ہوتے ہیں تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق دوسرے خود کش حملہ آور نے بھی ایک کیمرہ اٹھا رکھا تھا اور وہ وہاں ایک صحافی کے روپ میں کھڑا تھا۔ دوسرے حملے ميں ہلاک ہونے والے وہ صحافی تھے، جو وہاں پہلے بم دھماکے کی رپورٹنگ کے لیے کھڑے تھے۔ یہ وہ صحافی تھے، جو ہر روز اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر افغان جنگ کے متاثرین کو شناخت اور آواز فراہم کرتے ہیں۔
افغانستان میں میڈیا کی ترقی ان چند ایک کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو بین الاقوامی فورسز کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں۔ اب افغانستان میں تقریباﹰ ایک سو ستر ریڈیو اسٹیشنز اور درجنوں اخبارات ہیں۔ صرف دارالحکومت کابل سے تیس سے زائد ٹی وی چينلز کی نشريات ديکھی جا سکتی ہیں۔ نوجوان پیشہ ور صحافی جمہوری عمل کی امید کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
افغان صحافی: ہر طرف سے دباؤ اور خطرہ
اس حملے میں فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے چیف فوٹو گرافر شاہ مرائی بھی ہلاک ہوئے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بیوی اور چھ بچے چھوڑ گئے ہیں۔ اس سال کے پہلے چار ماہ میں ہی کابل کو دس بڑے حملوں کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ایک خوف کی فضا پیدا ہو چکی ہے اور لوگ عوامی مقامات سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں شاہ مرائی نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ اس طرح سول سوسائٹی ترقی نہیں سکتی، ’’میں اب زندگی کے امکانات بہت ہی کم محسوس کرتا ہوں اور مجھے کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ تشویش کا وقت ہے۔‘‘
پیر کے روز ہونے والا حملہ افغانستان میں آزادی صحافت پر پہلا حملہ نہیں تھا۔ لیکن اس مرتبہ منظم طریقے سے صحافیوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس کا مقصد واضح تھا کہ جمہوریت کے خوشگوار خیالات کو جڑ سے ہی اکھاڑ دیا جائے۔ افغانستان میں پارلیمانی انتخابات اکتوبر میں ہوں گے اور یہ پہلے ہی تین برس تاخیر سے ہو رہے ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں میں ووٹر رجسٹریشن سینٹرز حملہ آوروں کا مرکزی ہدف رہے ہیں۔
جرمن فوٹوگرافر نیدرنگہاؤس کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں
اب کتنے صحافی کسی بڑے دھماکے کی جگہ بھاگ کر پہنچیں گے یا الیکشن کے حوالے سے رپورٹنگ کریں گے؟ اس واقعے کے بعد افغان صحافیوں کا جذبہ ایک مرتبہ پھر کمزور پڑ گيا ہے۔ تیس اپریل کے دھماکوں کی دھول ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ مشرقی صوبے خوست میں پیش آنے والے ایک دوسرے واقعے میں بی بی سی کے ایک نمائندے کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ایک ہی دن میں دس صحافی ہلاک ہوئے۔
دریں اثناء قندہار میں ایک نیٹو قافلے پر حملے کے دوران گیارہ بچے بھی ہلاک ہو گئے۔ لیکن ان کے نام نہیں لیے جائیں گے اور ان کا شمار بڑھتی ہوئی عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کیا جائے گا۔