افغانستان میں امریکی مقاصد کے حصول کے لئے ساتھ ہیں: پاکستانی صدر
6 مئی 2009خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن اور ڈیموکریٹ نمائندے گیری کوننولی نے بتایا ہے کہ نوے منٹ تک جاری رہنے والی بند کمرہ ملاقات میں آصف علی زرداری نے امریکہ کے تحفظات کو دور کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
صدر آصف علی زرداری کی حکومت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا وہ اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کے لئے سیاسی عزم رکھتے ہیں یا نہیں۔ تاہم زرداری نے امریکی ارکین کانگریس کو یقین دہانی کروائی کہ ان کے پاس عوامی حمایت ہےاور وہ اندرونی سیکیورٹی خطرات سے بنرد آزما ہو سکتے ہیں۔ زرادی نے تاہم کہا کہ اس حوالے سے ان کی حکومت کو مزید امریکی مالی امداد درکار ہو گی۔
دریں اثنا پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں تیزی لائیں۔ ہالبروک نے کانگریس کے سامنے پاکستان اور افغانستان کی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ نیٹ ورک امریکہ کے لئے براہ راست خطرہ ہے اور پاکستان کی مدد کے بغیر ان دہشت گردوں سے نمٹنا مشکل ہے۔
ہالبروک نے پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ناکام ملک نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ درپیش ہے۔ تاہم ہالبروک نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردوں سے خطرات ضرور لاحق ہیں اورایسے ہی خطرات امریکہ کو بھی درپیش ہیں۔
ہالبروک نے امریکہ پر زور ڈالا کہ وہ پاکستان کو مجبور کریں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سیاسی عزم کا مظاہرہ کرے۔
پاکستانی صدرآصف علی زرداری ، افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی صدر باراک اوباما ،پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی پالیسی میں نظر ثانی کے لئے تین روزہ سمٹ میں شریک ہو رہے ہیں۔ بدھ سے شروع ہونے والی اس سمٹ میں تینوں رہنما دہشت گردی کے خلاف جنگ کو موثر بنانے کے لئے، پاک افغان تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر بھی بات چیت کریں گے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے واشنگٹن میں تھینک ٹینک بروکنگ انسٹیٹیوٹ میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ افغانستان میں اس وقت تک استحکام اور امن پیدا نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان میں طالبان کے مبینہ اڈوں کو تباہ نہیں کر دیا جاتا۔ تاہم کرزئی نے کہا کہ اس سمٹ کے دوران، وہ پاکستان کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کے ساتھ اس مسلے کے حل کے لئے بات چیت کریں گے۔
دونوں ممالک کے سربراہان اُس وقت امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کر رہے جب دونوں ممالک میں ہی طالبان باغیوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سوات وادی میں ممکنہ فوجی کارروائی کے خوف سے ہزاروں مقامی باشندے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔