1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

افغانستان میں امریکی ناکامی کی وجوہات، گھمنڈ اور جھوٹ

30 جولائی 2021

امریکی ماہرین افغانستان کی جنگ میں ناکامی کی وجوہات جمع کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق گھمنڈ، غرور، جھوٹ اور خود فریبی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3yJPc
Afghanistan | Bildergalerie | Truppenabzug
تصویر: Defense Press Office/AP/dpa/picture alliance

بین الاقوامی امور کے امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ ویتنام کی جنگ کے تجربے کے تناظر میں امریکا پر قسمت افغانستان میں بھی مہربان دکھائی نہیں دی۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کی دو دہائیوں پر پھیلی جنگ میں کئی داخلی اور خارجی امور نے ناکامی کی راہ کو ہموار کیا۔

افغانستان کی تعمیر نو کے امریکی دفتر کے انسپکٹر جنرل جان سوپکو کا کہنا ہے کہ جب اگست کی اکتیس تاریخ کو امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو گا تو پیچھے بدعنوان اور کم ہمت فوج رہ جائے گی، جسے طالبان کی چڑھائی کا سامنا ہے۔

افغانستان کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے، امریکا

چھیاسی بلین ڈالر، بیس سال

جان سوپکو کا خیال ہے کہ افغانستان کی قومی فوج بڑی آسانی سے عسکریت پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی کیونکہ ان کے اندر حوصلے کی شدید کمی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں قیام کے دوران چھیاسی بلین ڈالر جھونک دیے اور بیس برس بھی صرف کیے مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوا۔

Weltspiegel 15.04.2021 | USA Washington | Präsident Joe Biden zu Truppenabzug Afghanistan
امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے اپنی ملکی افواج کے اکتیس اگست تک مکمل انخلا کا اعلان کر رکھا ہےتصویر: Andrew Harnik/REUTERS

سوپکو کو امریکی کانگریس کی جانب سے یہ مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ فوج اور ترقیاتی امور کی نگرانی کریں۔ انہوں نے جمعرات انتیس جولائی کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو لفظوں میں افغانستان کی جنگ میں امریکی ناکامی کو بیان کیا جا سکتا ہے اور اس میں ایک گھمنڈ جبکہ دوسرا جھوٹ ہے۔

امریکا افغانستان میں موجود رہے گا، امریکی وزیر خارجہ

گھمنڈ اور جھوٹ

جان سوپکو کا کہنا ہے کہ امریکا سن 2001 میں ایک ایسے ملک میں داخل ہوا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور پھر داخل ہونے کے بعد معاملات کے حوالے سے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔ سوپکو کے مطابق کانگریس اور امریکی عوام کے سامنے صورت حال کو بیان کرتے ہوئے انتہائی مبالغے سے کام لیا گیا۔

انہوں نے مبالغہ کرنے میں تمام جرنیلوں، سفیروں اور اہلکاروں کو شامل کیا ہے۔ سوپکو کے مطابق وقفے وقفے سے کم مدتی مقاصد کے حصول کے لیے امریکی فوج کو مضبوط کرنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں اور بار بار منزل کا تعین کیا جاتا رہا۔ سوپکو نے کہا کہ افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے کی کوشش کا سلسلہ رکھا گیا اور یہ ایک غلطی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان امور کے ماہرین سے پوچھا جاتا تو وہ بھی اس کوشش کو غلطی قرار دیتے لیکن ان سے مشورہ ہی نہیں کیا گیا۔

US-Soldaten in Afghanistan
امریکی فوجیوں کی افغانستان کے مختلف علاقوں میں سے واپسی کا سلسلہ جاری ہےتصویر: Brian Harris/Planet Pix/ZUMA/picture alliance

جنگ ہار گئے، کارٹر ملکاسیان

افغانستان میں ملازمت کرنے والے اور پینٹاگون کے ایک سینیئر اہلکار کارٹر ملکاسیان کا کہنا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ جنگ ہار چکے ہیں۔ یہ بات انہوں نے اپنی ایک نئی کتاب میں تحریر کی ہے۔ ملکاسیان کے مطابق افغانستان میں طالبان نے غیرملکیوں کے خلاف جنگ لڑنے میں زیادہ ہمت دکھائی ہے اور لوگوں کا خیال تھا کہ کابل حکومت غیر ملکیوں پر انحصار کرتی ہے۔

امریکا کا طالبان کے خلاف افغان فورسز کی مدد کا وعدہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ احساس پیدا ہوا کہ امریکی موجودگی افغان شناخت پر پاؤں رکھنے کے مترادف ہے اور اس نے مقامی لوگوں میں مزاحمت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ ملکاسیان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قوم میں وطن کا دفاع کرنے کی لگن مذہبی بنیاد جیسی ہے اور غیر ملکیوں کے خلاف لڑنے کی بھی ایک طویل تاریخ بھی ہے۔

سابق سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ امریکا کو یقین تھا کہ افغانستان میں طالبان کو شکست دینا ممکن ہے اور ایک حکومت کھڑی کی جا سکتی ہے، حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

ع ح/ج ا (اے ایف پی)