افغانستان میں حملے، امریکہ کا پاکستان کو انتباہ
15 ستمبر 2011وزیر دفاع پنیٹا نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ پیر کے روز کابل میں واقع امریکی سفارتخانے پر کیے گئے حملے میں پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک کے جنگجو ملوث تھے۔ پیر کو کابل کے انتہائی حساس علاقے میں واقع امریکی سفارتخانے اور نیٹو کے ہیڈ کوارٹرز کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
افغانستان میں تعینات امریکی سفیر رائن سی کروکر نے بھی شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس حملے میں حقانی نیٹ ورک ملوث ہے۔ اسی طرح افغان صوبے وردک میں بھی ہفتہ کے دن کیے گئے بم دھماکے کا ذمہ دار اسی نیٹ ورک کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس حملے میں 77 امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔
ان واقعات کے تناظر میں بدھ کو امریکی وزیر دفاع نے کہا، ’ہم نے بارہا پاکستانی حکومت کو کہا ہے کہ وہ اس طرح کے حملے روکنے کے لیے حقانی گروپ کے خلاف اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی خاص پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی‘۔
لیون پنیٹا نے کہا، ’میرے خیال میں پاکستان کو جو پیغام دیا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ ہم افغانستان میں تعینات اپنی افواج کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا سکتے ہیں‘۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ واشنگٹن حکومت اس طرح کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر سکتی ہے۔
لیون پنیٹا نے کہا کہ وہ حقانی گروپ کی اس اہلیت پر شدید تحفظات رکھتے ہیں کہ اس کے ارکان سرحد پار افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف کارروائی کر کے واپس پاکستان میں واقع اپنے محفوظ ٹھکانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔
لیون پنیٹا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ ان حملوں کے جواب میں ہمارا ردعمل کیا ہو گا۔ میں آپ کو صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ ہم اس طرح کے حملوں کی اجازت ہر گز نہیں دیں گے‘۔
پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک کے ساتھ قریبی روابط رکھتی ہے۔ جنگجوؤں کا یہ گروہ پاکستان میں حملے نہیں کرتا اور کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو قائم کرنے کے لیے یہ گروہ کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک