افغانستان میں لاپتہ جرمن اغوا ہوئے ہیں
29 اگست 2011ان دونوں جرمن مردوں کو رواں ماہ کے آغاز پر درہء سالانگ کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق یہ دونوں افراد ہندو کش کے پہاڑی سلسلے پر کوہ پیمائی کا اراداہ رکھتے تھے۔
گزشتہ ہفتے برلن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دو جرمن باشندے لاپتہ ہو گئے ہیں اور ان کے اغوا کیے جانے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پروان صوبے میں پولیس کے سربراہ شیر احمد ملادانی کا کہنا ہے کہ کئی دنوں کی چھان بین اور تلاش کے بعد اب ان کے پاس واضع معلومات ہیں، ’’ہم جانتے ہیں کہ انہیں عسکریت پسندوں نے اغوا کیا ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں آپ کو فی الحال اس سے زیادہ معلومات فراہم نہیں کر سکتا لیکن بہت جلد ہی میں آپ کو اغوا ہونے والوں کے بارے میں مزید بتا سکوں گا۔‘‘
ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان جرمن باشندوں کو اغوا کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان میں درجنوں غیر ملکیوں کے اغوا کے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں سے اکثر یرغمالیوں کو تاوان وصول کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
دریں اثنا ایک سینئر افغان انٹیلی جنس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’جرمن باشندوں کو طالبان عسکریت پسندوں کی بجائے کسی دوسرے گروپ کی طرف سے اغوا کیا گیا ہے۔‘‘
افغان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی صوبے قندوز میں تعینات جرمن افواج کے افسران نے اغوا کاروں کے ساتھ رابطہ قائم کر لیا ہے جبکہ اب تک کے سرچ آپریشن میں بھی جرمن سکیورٹی اہلکار شامل رہے ہیں۔
افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کو کسی ایک جگہ پر رکھنے کی بجائے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔
جرمنی افغانستان متعینہ اپنے فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے وہاں اتحادی دستوں کے لیے افرادی قوت مہیا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ جرمنی کے پانچ ہزار چار سو کے قریب فوجی شمالی افغانستان میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی کمان میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک