1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: کار بم، سر قلم، ڈرون حملہ، پُر تشدد واقعات جاری

امجد علی9 اگست 2015

شمالی افغانستان میں ہفتے کو دیر گئے ایک طالبان خود کُش حملہ آور نے اپنی بارود سے بھری موٹر گاڑی دھماکے سے اڑا دی، جس کے نتیجے میں کم از کم بائیس افراد ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے میں کوئی درجن بھر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GCLZ
Anschläge in Kabul
افغان دارالحکومت کابل میں سات اگست کے ٹرک بم دھماکے کے بعد ایک اہلکار اپنے موبائل فون پر بات کر رہا ہےتصویر: Reuters/A. Masood

افغان وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ قندوز میں ہوئے کار بم دھماکے میں مرنے والے عام شہری تھے تاہم مقامی حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والے طالبان کی ایک مخالف ملیشیا کے ارکان تھے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اس تازہ حملے کے پیچھے طالبان کا ہاتھ تھا۔

اس طرح افغانستان بھر میں پُر تشدد حملوں کا وہ سلسلہ جاری ہے، جس کے دوران گزشتہ چند روز کے دوران درجنوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں، بے شمار زخمی ہوئے ہیں اور جس میں ابھی ایک روز پہلے کابل میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک اڈے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

جمعے کا دن گزشتہ کئی برسوں میں افغان دارالحکومت کے لیے خونریز ترین دن تھا، جب ایک آرمی کمپلیکس، ایک پولیس اکیڈمی اور امریکی اسپیشل فورسز کی ایک بیس پر حملے میں سرکاری بیانات کے مطابق اکیاون افراد ہلاک ہو گئے۔

مختلف خبر رساں اداروں کی متفقہ رپورٹوں کے مطابق خود کُش حملے کا تازہ واقعہ ہفتے کو دیر گئے قندوز صوبے کے ضلعے خان آباد میں پیش آیا۔ ضلعی گورنر حیات اللہ امیری نے بتایا کہ یہ کار دیسی ساخت کے دھماکا خیز مواد سے بھری ہوئی تھی اور اسے ایک اجتماع کے قریب دھماکے سے اڑایا گیا۔ پولیس کے ترجمان سرور حسینی نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ اس حملے کا مقصد ایک حکومت نواز ملیشیا کے اجتماع کو نشانہ بنانا تھا۔

صوبائی گورنر کے ترجمان عبدالودود وحیدی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ اس دھماکے کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کے ایک گروہ کے ایک اجتماع کو نشانہ بنایا گیا اور یہ کہ یہ ایک ایسا گروہ ہے، جو ماضی میں قومی سکیورٹی فورسز کو بھی اور طالبان باغیوں کو بھی حملوں کا ہدف بناتا رہا ہے۔

اب تک طالبان کی زیادہ تر کارروائیاں جنوبی اور مشرقی افغانستان تک ہی محدود تھیں تاہم تازہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب شمال میں بھی طالبان کے حملوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔

اسی دوران صوبے بدخشاں میں صوبائی گورنر کے ترجمان نوید فورتان نے بتایا کہ طالبان نے ایک ستائیس سالہ شادی شُدہ خاتون پر، جوتین بچوں کی ماں تھی، ناجائز تعلقات رکھنے کے الزام میں پھانسی دے دی۔ فورتان کے مطابق اس خاتون کو ہفتے کی صبح ایک ہجوم کے سامنے ایک درخت کے ساتھ پھانسی دی گئی۔

Anschläge in Kabul
ٹرک بم دھماکے کا ایک اور منظر: جمعے کا دن گزشتہ کئی برسوں میں افغان دارالحکومت کے لیے خونریز ترین دن تھاتصویر: Reuters/A. Masood

بدخشاں ہی میں ایک الگ واقعے میں ہفتے کو طالبان نے دو مقامی پولیس اہلکاروں اور ایک شہری کے سر قلم کر دیے۔ نوید فورتان کے مطابق طالبان نے ان تینوں پر جاسوسی کا الزام لگایا تھا۔

مشرقی ننگرہار صوبے میں ہفتے کے روز ہی افغان فورسز نے ایک ڈرون حملہ کیا، جس میں پندرہ باغی ہلاک اور نو زخمی ہو گئے۔ یہ بات اس صوبے کے پولیس چیف کے ترجمان حضرت حسین مشرقی وال نے بتائی۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ بین الاقوامی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے ایک فضائی حملے میں کم از کم دَس باغیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

افغان طالبان کے سابق قائد ملا عمر کے دو سال سے بھی زائد عرصہ قبل انتقال کر جانے کے اعلان اور نئے قائد ملا اختر منصور کی تقرری کے بعد سے طالبان نے اپنی کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حملوں میں تیزی لاتے ہوئے ملا منصور طالبان کی صفوں میں اپنی ساکھ کو مستحکم بنانے اور قیادت کے معاملے پر پائی جانے والی اندرونی پھوٹ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید