کابل: پَے در پَے حملوں میں درجنوں ہلاکتیں، پس منظر کیا ہے؟
8 اگست 2015ان حملوں میں ایک گنجان آباد شہری علاقے میں ایک بڑے ٹرک بم کے دھماکے کے ساتھ ساتھ ایک پولیس اکیڈمی پر خود کُش حملہ بھی شامل ہے، جس میں درجنوں زیرِ تربیت کیڈٹ موت کے منہ میں چلے گئے۔
طالبان کے قائد ملا عمر کے انتقال کر جانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد سے اچانک اس طرح کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پولیس اکیڈمی پر حملے کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے لیکن دیگر حملوں کا ابھی کوئی دعویدار سامنے نہیں آیا۔
خونریز حملوں کی اس نئی لہر نے امن عمل میں تیز پیشرفت کی اُن امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، جو گزشتہ ہفتے ملا اختر منصور کے نیا طالبان سربراہ مقرر ہونے کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ایک جائزے کے مطابق ملا اختر منصور کی بطور قائد تقرری ہی کے مسئلے پر طالبان کی صفوں میں پھوٹ پڑنے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق عام طور پر طالبان کا انتظامی ڈھانچا اب تک بہت منظم نظر آتا رہا ہے تاہم اب نئے قائد کے حریف نہ صرف اُن کی تقرری کو کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں بلکہ اُن کی طرف سے امن عمل کو جاری رکھنے کے موقف کو بھی ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
ڈی پی اے نے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان کے اس اندرونی بحران سے نہ صرف خود اس تحریک کے اندر دھڑے بندی شروع ہونے کا امکان ہے بلکہ اپنے ابتدائی مراحل سے گزرنے والا امن عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے، پاکستان اور افعانستان کے درمیان تعلقات خراب تر ہو سکتے ہیں اور ا س خطے میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسی تنظیم کو ابھرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز پر طالبان کے قطر آفس کے سربراہ اور سابق قائد ملا عمر کے ایک قریبی عزیز طیب آغا نے ملا اختر منصور کی ’بیرونِ ملک‘ تقرری اور ملا عمر کے انتقال کر جانے کے اعلان کے لیے وقت کے انتخاب کو ’تاریخی غلطیاں‘ قرار دیا تھا۔ د یگر طالبان رہنماؤں کو گلہ ہے کہ اُنہیں دو سال سے زیادہ عرصے تک ملا عمر کے انتقال کے حوالے سے بے خبر کیوں رکھا گیا۔
خوست سے ایک طالبان کمانڈر نے ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’ہم ناخوش ہیں کیوں کہ شوریٰ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملا عمر کا انتقال پاکستان میں ہوا اور پاکستان ہی میں ملا اختر منصور کی تقرری عمل میں آئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قیادت پاکستان پر کتنا انحصار کر رہی ہے۔ افغانستان کے عوام کی جانب یہ کوئی اچھا پیغام نہیں ہے۔ اس سے اُن جنگ جوؤں کے حوصلے پست ہوں گے، جو ہر روز افغانستان کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔‘‘
حکومتِ پاکستان کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اکتیس جولائی کو امن مذاکرات کے مجوزہ آغاز سے دو روز قبل ملا عمر کے انتقال کی خبروں کا منظرِ عام پر آنا ظاہر کرتا ہے کہ ’یہ ایسے لوگوں کا کام ہے، جو نہیں چاہتے کہ یہ مذاکرات ہوں‘۔
طالبان کے کسی متفقہ سربراہ کی تقرری تک امن مذاکرات میں پیش رفت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پاکستانی حکومت کے نمائندے کے مطابق طالبان کی جانب سے کسی ایک رہنما کے نام پر اتفاقِ رائے سامنے آنے میں کم از کم دو ماہ لگ جائیں گے۔ طالبان ذرائع کے مطابق ملا اختر منصور کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب اور بھائی عبدالمنان کی جانب سے کرنا پڑ رہا ہے۔