1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتدار چھوڑا تو صورت حال مزید بگڑ جائے گی، مبارک

4 فروری 2011

مصر کے صدر حسنی مبارک نے فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے، تاہم یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ان کے بعد ملک کا کیا ہوگا۔ اسی حوالے سے یورپی یونین اور میونخ سکیورٹی کانفرنس بھی آج ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/10ASs
تصویر: picture-alliance/dpa

مصر میں مظاہرین نے صدر حسنی مبارک کو عہدہ چھوڑنے کے لیے جمعہ تک کی حتمی تاریخ ہی دے رکھی ہے۔ اب حسنی مبارک نے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ ایسا کیا تو ملک ابتری کے اندھیروں میں چلا جائے گا۔

NO FLASH Proteste in Kairo
مظاہرین حسنی مبارک پر اقتدار سے فوری طور سے علیٰحدہ ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

حکومت مخالف مظاہروں کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں حسنی مبارک نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ وہ اقتدار سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ وہ اقتدار سے دستبردار ہوئے تو اسلام پسند اخوان المسلمین پارٹی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لے گی۔

مصر میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے جبکہ حکومت نواز اور حکومت مخالف مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔

مصر کے وزیر صحت احمد سمیع فرید نے کہا ہے کہ بدھ سے شروع ہونے والی جھڑپوں میں اب تک آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زخمیوں کی تعداد 890 بتائی ہے، جن میں سے نو کی حالت نازک ہے۔

امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ مصر کی عسکری قیادت نے اپنی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ نہ کرنے کی یقین دہائی کرائی ہے۔

امریکی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ قاہرہ حکام کے ساتھ اقتدار کی منتقلی پر بات چیت کر رہے ہیں۔ امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے اس حوالے سے اپنے مصری ہم منصب عمر سلیمان سے بات کی ہے۔

مصر اور دیگر عرب ریاستوں کے بحران پر یورپی یونین کا خصوصی اجلاس آج منعقد ہو رہا ہے جبکہ مصر کی صورت حال پر ردِعمل ظاہر کرنے میں سست روی پر یورپی رہنماؤں کو پہلے ہی تنقید کا سامنا بھی ہے۔

بیلجیم کے سابق وزیر اعظم نے یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’کیوں، مسزایشٹن، یورپ کا ردعمل اس قدر سست کیوں ہے؟‘

تاہم یورپی یونین کے رہنما اپنا ردِعمل ظاہر کرنے کے لئے قاہرہ میں کسی پیش رفت کے منتظر بھی ہیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی نے یورپی یونین کے ایک سفیر کے حوالے سے بتایا کہ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں، نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس کے لئے انتظار کرنا ہوگا۔

Proteste in Kairo
حکومت نواز مظاہرینتصویر: Picture-Alliance/dpa

قبل ازیں جمعرات کو یورپی یونین کے اہم رکن ممالک جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور اسپین نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا، ’اقتدار کی منتقلی کا عمل اب شروع ہو جانا چاہیے۔‘

اُدھر 47ویں میونخ سکیورٹی کانفرنس کا آغاز آج جرمنی میں ہو رہا ہے۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس پر بھی مصر اور تیونس کے حالات کا موضوع ہی حاوی رہے گا۔

مصر میں پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی بن رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس صورت حال پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے ان حالات کو ’اشتعال انگیز اور ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔ بان کی مون نے یہ باتیں جمعرات کو جرمن دارالحکومت برلن میں جرمن صدر کرسٹیان وولف سے ملاقات کے بعد کہیں۔ وہ آج میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں بھی شریک ہوں گے۔

رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں