مذہبی انتہاپسندی اور اس کا سہارا بننے والے قوانین کی مدد سے جو الاؤ چار دہائیوں سے روشن ہے، اس میں جلنے والا یہ پہلا غیر ملکی باشندہ تھا۔ اس سے پہلے ریاستی اداروں کے پاس ایسی ہر واردات کے لیے روایتی تاویلات ہوتی تھیں اور ایسی ہر واردات اگلا جرم ہونے تک انفرادی و اجتماعی یاداشت سے چند روز کے اندر بہت سہولت سے محو ہو جاتی تھی۔
پر اس بار معاملہ ریاستی حدود پار کر کے علاقائی و بین الاقوامی رنگ اختیار کر گیا تھا اور مرنے والا پاکستان کے ایک قریبی دوست ملک کا شہری بھی تھا۔ چنانچہ ریاستی اداروں کو ایں آں اوں، چونکہ چنانچہ، اگر مگر کا تکیہ نہ مل سکا اور پھر وہی قوانین جو اپنے شہریوں کے لیے ساکت و جامد ہو جاتے ہیں انہی قوانین کی مدد سے پریانتھا کے قتل کا مقدمہ انتہائی تیز رفتاری سے چلایا گیا۔ صرف چار مہینے میں انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کوٹ لکھپت جیل میں مسلسل سماعت کر کے اپنی کارروائی مکمل کر لی۔
پاکستان پینل کوڈ کی سات اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دو دفعات کے تحت پہلی ایف آئی آر نو سو افراد کے خلاف درج ہوئی۔ ڈھائی سو سے زائد گرفتاریاں ہوئیں۔ نواسی افراد پر باقاعدہ فردِ جرم عائد ہوئی۔ ملزموں میں نو افراد قانوناً نابالغ تھے۔ استغاثے نے تینتالیس عینی گواہ عدالت میں پیش کیے۔ چھتیس دیگر گواہوں کی شہادتیں چالان میں شامل کی گئیں۔ بیانات اور جرح کا عمل ایک ماہ کے اندر مکمل ہو گیا۔
جرم ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے، آڈیو اور وڈیو ثبوت مستعدی سے جمع کئے گئے۔ واقعات کی دس وڈیوز کا فورنزک آڈٹ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والے فوٹیجز اور پچپن ملزموں کے موبائل فونز سے ملنے والے ثبوت بھی بطور ڈجیٹل شہادت مقدمے کا حصہ بنائے گئے۔
اٹھارہ اپریل دو ہزار بائیس کو نواسی میں سے اٹھاسی ملزموں کو سزا سنائی گئی۔ ان میں سے چھ ملزموں کو سزاِ موت اور دو دو لاکھ روپیہ جرمانہ۔ نو ملزموں کو عمر قید مع دو لاکھ روپیہ فی کس جرمانہ، بہتر افراد کو دو برس قیدِ بامشقت، ایک ملزم کو پانچ برس قید سنائی گئی اور ایک بری ہو گیا۔
یہ وہی پنجاب پولیس اور عدالتی نظام تھا، جس کی نگاہوں کے سامنے اگست دو ہزار نو میں فیصل آباد کے نواحی قصبے گوجرہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے الزام کی آڑ میں کرسچن بستیوں پر قیامت ٹوٹی اور چار خواتین ایک مرد اور دو بچوں سمیت چھ انسان زندہ جلا دیے گئے ۔سینکڑوں کرسچنز نے فرار ہو کر جان بچائی اور عارضی نقلِ مکانی کی۔ بلوے کے پیچھے کالعدم مذہبی انتہاپسند تنظیم سپاہِ صحابہ کی منصوبہ بندی بتائی گئی۔
رانا ثنا اللہ تب پنجاب کے وزیرِ داخلہ تھے۔ بقول ان کے قرآن جلانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور بیرونی شرپسندوں نے گوجرہ شہر میں گھس کے مقامی آبادی کو اکسایا۔ وزیرِ اقلیتی امور شہباز بھٹی نے گوجرہ کا دورہ کیا۔ کچھ عرصے بعد شہباز بھٹی کو بھی اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔
مارچ دو ہزار تیرہ میں لاہور کے علاقے بادامی باغ کی جوزف کالونی میں قرآن کی بے حرمتی کی افواہ پھیلنے کے بعد ہزاروں مشتعل افراد نے کرسچن بستی کا محاصرہ کر لیا۔ ڈیڑھ سو گھر، تین چرچ اور بیسیوں دوکانیں نذرِ آتش ہو گئیں۔ پولیس کو چونکہ پہلے سے سن گن تھی لہذا کرسچن کمیونٹی کو پیشگی خبردار کر دیا گیا اور توڑ پھوڑ سے پہلے ہی بستی خالی ہو گئی۔
گوجرہ میں بھی سینکڑوں گرفتاریاں ہوئیں اور لاہور کی جوزف کالونی کے سانحے میں بھی ایک سو چھ افراد پر فردِ جرم عائد ہوئی۔ دونوں مقدمات میں گواہوں نے تمام ملزموں کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ سب ملزم عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیے گئے۔
گویا جزا و سزا سے بے نیاز اور قوانین کی کمزور گرفت کے سبب جڑانوالہ گوجرہ اور جوزف کالونی سیریز کا تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ بلکہ اس واقعہ میں گرجاگھروں، املاک اور کاروبار کی پامالی کا دائرہ مقابلتاً وسیع ہے۔ اس بابت مقامی انتظامیہ کو پیشگی انٹیلی جینس رپورٹیں بھی موصول ہوتی رہیں۔
اس بار پہلی بار ایسا ہوا کہ جس کرسچن شخص پر توہینِ قرآن کا الزام لگایا گیا۔ اس کے ہاتھ کی لکھی مبینہ تحریر پر اس کی تصویر بھی چپکی ہوئی تھی اور یہ پرچہ ایک مسلمان گھر کے باہر پڑا ملا۔ کسی گستاخ سے آج تک اتنی ”دیدہ دلیری‘‘ پہلے کبھی سرزد نہیں ہوئی تھی۔ مزید چمتکار یہ ہے کہ جس کے بارے میں کہا گیا کہ پرچہ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے وہ بذاتِ خود ان پڑھ ہے۔
قرآن کے جلے اوراق نہ گوجرہ میں ملے، نہ جوزف کالونی لاہور میں اور نہ ہی اب تک جڑانوالہ میں۔ البتہ تینوں وارداتوں میں بائبل کے نسخے اور صلیبیں ضرور جل گئے۔
جس طرح ریاست نے سری لنکا کے باشندے پریانتھا کمارا کی ہلاکت کو سنجیدگی سے لیا تھا اس سے کم ازکم یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ وہی پولیس فورس، جانچ پڑتال کے وہی فرسودہ طریقے اور وہی ناقص عدالتی نظام اگر چاہے تو صرف چار ماہ میں دودھ اور پانی کو الگ الگ کر کے ملزموں کو کڑی سزائیں دلوا سکتا ہے۔ وہی نظام اگر نہ چاہے تو تمام تر ثبوتوں کے باوجود ایک بھی ملزم کا بال بیکا نہیں ہو سکتا۔
ہمیں اور ہمارے ملک کو اندرون و بیرونِ ملک جو امیج پرابلم لاحق ہے اس کی جڑ یہی ہے کہ اس ملک میں اپنے ہی شہریوں کو درجہ دوم چھوڑ درجہ سوم کے شہری سمجھا جاتا ہے اور اسٹرٹیجک معاملات میں استعمال کی قیمت کے طور پر انتہاپسند قوتوں کی بھوک مٹانے کے لیے کمزور طبقات کی شکل میں راتب پیش کر دیا جاتا ہے۔
سانحہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ مذمتی بیانات و یقین دہانیوں کا انداز وہی سائیکلو اسٹائل رہتا ہے۔ ایسا نہیں کہ انصاف ہو نہیں سکتا یا قانون خود کو نہیں منوا سکتا۔ مگر شاید یہ ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔
اور جب اس پس منظر میں ہمارے رہنما بھارت میں مسلمان اقلیت کے ساتھ مسلسل امتیازی برتاؤ، یورپی ممالک میں قرآن کی بے حرمتی اور اقوامِ متحدہ کے فورم سے اسلاموفوبیا کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہیں تو مجھے ہمیشہ حضرت علی کا قول یاد آ جاتا ہے۔
”کسی پر انگلی اٹھاتے ہوئے دیکھنا کہ کہیں تمہارے ہی ہاتھ کی تین انگلیاں تمہاری طرف تو نہیں مڑ رہیں۔‘‘
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔