1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ: بھارت کو انسانی حقوق پر عمل کرنے کی نصیحت

11 نومبر 2022

اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے بھارت سے جنسی تشدد اور مذہبی تفریق کے خلاف سخت موقف اپنانے کی اپیل کی۔ انہوں نے بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تشویش کا اظہار کیا اور اذیت اور تشدد کنونشن کی توثیق کرنے کی بھی اپیل کی۔

https://p.dw.com/p/4JNMw
Indien Gruppenvergewaltigung und Ermordung an Dalit-Frauen Proteste
تصویر: Rajanish Kakade/AP Photo/picture alliance

اقوام متحدہ میں جمعرات کے روز بھارت  میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بحث ہوئی۔ اس دوران شرکاء نے متنازع انسداد دہشت گردی قانون (یو اے پی اے) کے مبینہ غلط استعمال، مذہب کی بنیاد پر تفریقی سلوک، مسلمانوں کے ساتھ مبینہ زیادتی اور جنسی تشدد وغیرہ پر اظہار خیال کیا۔ رکن ممالک نے بھارت کو اپنے یہاں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کی بھی نصیحت کی۔

بحث کے دوران بھارت سے اپیل کی گئی کہ وہ اذیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کرے۔ بھارت نے اس کنونشن پر دستخط تو کردیے ہیں تاہم اس کی اب تک توثیق نہیں کی ہے۔

کشمیری انسانی حقوق کے کارکن کو رہا کیا جائے، اقوام متحدہ

جمعرات کے روز جنیوا میں ہونے والی یہ بحث اس جائزہ میٹنگ کا حصہ تھی جس سے اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو ہر چار برس میں ایک مرتبہ گزرنا پڑتا ہے۔

انسداد دہشت گردی قانون پر سخت تشویش

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں امریکی سفیر مشیل ٹیلر نے کہا کہ بھارت کو یو اے پی اے کا استعمال کم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا، "ہم سفارش کرتے ہیں کہ یو اے پی اے اور اس طرح کے قوانین کا انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور اقلیتی فرقے کے افراد کے خلاف وسیع تر استعمال کو کم کیا جائے۔"

انہوں نے مزید کہا،"بھارت میں قانونی تحفظ حاصل ہونے کے باوجود صنفی اور مذہبی بنیادوں پر تفریق اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ انسداد دہشت گردی  قوانین کے استعمال کی وجہ سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو طویل عرصے تک حراست میں رکھا جا رہا ہے۔"

خیال رہے کہ یو اے پی اے کی بھار ت میں بھی مسلسل مخالفت  ہوتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور پولیس اس قانون کا استعمال اذیت دینے کے لیے کر رہی ہے۔

رواں برس اگست میں بھارت کے نائب وزیر داخلہ نتیہ نند رائے نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ سن 2018 سے سن 2020 کے درمیان 4690 افراد کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا جب کہ صرف 149 افراد کو قصوروار پایا گیا۔ سن 2020 میں 1321 افراد کو اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا جب کہ صرف 80 افراد کو قصوروار پایا گیا۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں اترپردیش میں ہوئیں، جہاں یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے بھارت کو اپنے انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کی نصیحت کی
اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے بھارت کو اپنے انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کی نصیحت کیتصویر: Francisco Seco/AP Photo/picture alliance

رکن ممالک نے بھارت کو کیا نصیحتیں کیں؟

کینیڈا نے بھارت سے اپیل کی کہ جنسی تشدد کے تمام کیسز کی تفتیش کرائے اور مذہبی تشدد کے معاملات کی جانچ کرتے ہوئے "مسلمانوں سمیت" تمام فرقوں کی مذہبی آزادی کے حقوق کی حفاظت کرے۔

برطانوی سفیر سائمن مینلے نے بھارت سے اپیل کی، "اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بچہ مزدوری، بردہ فروشی اور بندھوا مزدوری کے خلاف موجودہ قوانین پر پوری طرح عمل درآمد ہو۔"

چین نے بھارت کو انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے موثر طریقے اپنانے اور صنفی مساوات کو یقینی بنانے کی نصیحت کی۔

اقوام متحدہ کا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ

نیپال نے بھی بھارت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اسے "خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تفریق اور تشدد پر قابو پانے کے لیے اپنی کوششیں مستحکم کرنی چاہئیں۔"

بھوٹان نے بھی بھارت کو نصیحت کی

بھوٹان نے کہا کہ بھارت کو بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ جرمنی نے کمزور طبقات کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔

سعودی عرب نے بھارت میں نوزائیدہ اور زچہ کی شرح اموات کو کم کرنے کی نصیحت کی۔

آسٹریلیا نے کہا کہ بھارت سے سزائے موت کو باضابطہ ختم کرنے کی اپیل کی۔

انسانوں کی اسمگلنگ: دلیر مہندی کو دو سال قید کی سزا

سوئٹرزلینڈ نے بھارت میں انٹرنیٹ پر پابندی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسے یہ یقینی بنانا چاہئے کہ "ہر ایک کے پاس سوشل نیٹ ورک تک رسائی ہو اور انٹرنیٹ کو بند کرنے یا اس کی رفتار کو سست کرنے کی کارروائیاں نہ ہوں۔"

بھارت کا کہنا تھا کہ بھارت کا آئین ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے
بھارت کا کہنا تھا کہ بھارت کا آئین ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہےتصویر: Reuters/L. Jackson

بھارت کا جواب

بھارت نے کہا کہ وہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کے کردار کی تعریف کرتا ہے اور سزائے موت کا اطلاق صرف انتہائی نادراور غیر معمولی کیسز میں ہی کیا جاتا ہے۔

بھارت کی جانب سے جواب دیتے ہوئے سالسٹر جنرل توشار مہتہ کا کہنا تھا کہ بھارت کا آئین ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ "بولنے اور اظہار رائے کی آزادی مطلق نہیں ہوسکتی" اور بھارت کی سلامتی، اتحاد، سالمیت، خود مختاری اور غیرملکی تعلقات کے خاطر" اس پر منطقی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔

بھارت میں آزادی رائے پر قدغن، احتجاج: ماہرین تعلیم مستعفی

توشار مہتہ کا کہنا تھا کہ "منطقی بنیاد پر پابندیاں عائد کرنا اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ جہاں بولنے اور اظہار رائے کی آزادی'نفرتی تقریر'میں بدل جائے وہاں حکومت اسے قابو میں کرسکے۔"

انہوں نے کہا کہ بھارت اذیت کی کسی بھی شکل کی مذمت کرتا ہے۔ اور یک طرفہ گرفتاری، اذیت، ریپ، جنسی تشدد کی کسی بھی شکل کی مذمت کرتا ہے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری سنجے ورما نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی سفارشات کو حکومت کے سامنے پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سرکار اپنے لوگوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے اپنے عہد پر قائم ہے۔

سنجے ورما کا کہنا تھا،"دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت  ہونے کے ناطے بھارت انسانی حقوق کے اعلیٰ ترین میعار کے تئیں اپنے عہد پر قائم ہے۔"

ج ا/ ص ز (اے ایف پی)