1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الصدر کا عراقی سیاست سے علیحدگی کا اعلان، بغداد میں کرفیو

29 اگست 2022

عراق کے بااثر شیعہ مبلغ مقتدی الصدر نے سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول وہ سیاسی عمل میں پیدا تعطل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4GBM0
Iraq Protests
تصویر: Nabil al-Jurani/AP/picture alliance

 مقتدی الصدر نے آج پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا، ''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں سیاسی معاملات میں مزید کسی قسم کی مداخلت نہیں کروں گا۔ اسی لیے میں ہمیشہ کے لیے سیاست سے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔

مقتدر الصدر طویل عرصے تک عراقی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی بذات خود براہ راست حکومت کا حصہ نہیں رہے۔

اپنے اس اعلان کے لیے انہوں نے ٹویٹر کا استعمال کیا۔ انہوں نے مزید لکھا، ''الصدر تحریک سے وابستہ یا منسلک تمام ادارے بند کر دیے جائیں گے، سوائے ان مقامات کے، جن کا تعلق ان کے ورثے سے ہے۔ اس کے علاوہ ان کے والد کا مزار بھی کھلی رہے گا، جنہیں 1999ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔‘‘

حکام نےعراق: بغداد میں مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے دارلحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

ابھی دو روز قبل ہی الصدر نے کہا تھا کہ جنگ سے تباہ حال اس ملک کے سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام جماعتوں بشمول ان کی اپنی جماعت کو سرکاری عہدوں سے الگ ہو جانا چاہیے۔

عراق میں گزشتہ برس اکتوبر میں انتخابات ہوئے تھے اور اس کے بعد سےملک میں حکومت سازی تعطل کا شکار ہے۔ مختلف جماعتوں کے مابین اختلافات کی وجہ سے ابھی تک نہ تو کوئی وزیراعظم بن سکا ہے اور نہ ہی صدر کے لیے کسی نام پر اتفاق ہوا ہے۔ مختلف دھڑوں کے مابین حکومتی سازی کے لیے اعتماد کا فقدان موجود ہے۔

Irak Bagdad | Unterstützer von Muqtada al-Sadr nahe dem Parlamentsgebäude
الصدر کے حامیوں نے حالیہ دنوں میں کئی مرتبہ پارلیمان کے سامنے دھرنا بھی دیاتصویر: Anmar Khalil/AP/picture alliance

الصدر تحریک کو ان انتخابات میں سب سے یعنی 73 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ جون میں الصدر تحریک کے تمام ارکان پارلیمان سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے اپنی نشستوں سے مستعفی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ایران نواز شیعہ حریف اتحاد پارلیمان میں سب سے بڑی قوت بن گیا تھا۔

اس کے بعد سے مقتدی الصدر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے رہے، جن میں اپنے ہزارہا حامیوں کے ساتھ اجتماعی دعاؤں کا سلسلہ بھی شامل ہے۔

الصدر کے حامیوں کا مطالبہ ہے کہ پارلیمان کو تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کرائے جائیں۔ مگر ہفتے کے روز الصدر  نے کہا کہ انتخابات سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان میں وہ تمام جماعتیں اور سیاسی شخصیات حصہ نہ لیں، جو 2003ء میں امریکی قیادت میں کی جانے والی مداخلت کے بعد سے سیاسی عمل کا حصہ رہی ہیں۔ اس میں ان کی اپنی جماعت بھی شامل ہے۔ الصدر کے بقول وہ اس تناظر میں ایک معاہدے پر بھی دستخط کرنے پر تیار ہیں۔

عراق میں مقتدی الصدر کے کئی لاکھ حامی ہیں۔ ان کا شمار سابق صدر صدام حسین کے مخالفین میں ہوتا ہے۔

ع ا ⁄ ش ر (اے ایف پی)