1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ امریکہ کے لیے بدستور حقیقی خطرہ ہے، پنیٹا

26 جنوری 2012

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن اور انوار العولقی کی ہلاکت کے باوجود القاعدہ امریکہ کے لیے بدستور حقیقی خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/13pvd
لیون پنیٹاتصویر: Reuters

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے یہ بات بدھ کو رات گئے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہی۔ یہ انٹرویو اتوار کو نشر کیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سی بی ایس نیوز نے لیون پنیٹا کے اس انٹرویو کے بعض حصے جاری کیے ہیں، جن میں پینٹاگون کے سربراہ نے القاعدہ کے عالمی نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے امریکی حکمت عملی پر بات چیت کی ہے۔

اس انٹرویو میں پنیٹا نے کہا ہے: ’’ہم القاعدہ کے (کارکنوں کے) پیچھے ہیں، وہ جہاں بھی ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’اور واضح طور پر، ہمیں پاکستان میں القاعدہ کا سامنا ہے۔ ہمیں یمن، صومالیہ اور شمالی افریقہ میں القاعدہ کا سامنا ہے، اور ظاہر ہے کہ القاعدہ کے ان سب رابطوں سے، جو افغانستان میں ملوث ہیں۔‘‘

پنیٹا سے جب پوچھا گیا کہ کیا امریکی فورسز نے القاعدہ کو شکست دے دی ہے تو انہوں نے کہا: ’’ابھی نہیں، وہ ابھی تک حقیقی خطرہ ہے۔ القاعدہ ابھی بھی موجود ہے۔ اور وہ جہاں بھی ہیں، ہمیں ان پر دباؤ برقرار رکھنا ہے۔‘‘

پنیٹا نے یہ بھی کہا کہ امریکی فورسز نے بہرحال القاعدہ کی قیادت کو بڑی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔

Aiman al-Sawahiri
القاعدہ کا سربراہ ایمن الظواہریتصویر: dapd

امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اس دہشت گرد نیٹ ورک کے جن دس رہنماؤں کے نام سامنے آئے، ان میں سے صرف ایک، ایمن الظواہری ہی زندہ ہے، جو القاعدہ کا موجودہ سربراہ بھی ہے۔ اس نے گزشتہ برس پاکستانی علاقے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی امریکی فورسز کے خفیہ آپریشن میں ہلاکت کے بعد اس گروہ کی قیادت سنبھالی۔

گزشتہ برس القاعدہ کے بیس مرکزی رہنماؤں میں سے آٹھ کو ہلاک کیا گیا، ان میں سے بیشتر امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنے۔

خیال رہے کہ لیون پنیٹا امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس جولائی میں امریکی وزیر دفاع کے عہدے پر رابرٹ گیٹس کی جگہ لی تھی۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبررساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں