1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ پارٹی کی مقبولیت بند گلی میں

1 دسمبر 2018

جرمنی میں انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کو مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔ اس جماعت کو خلاف ضابطہ عطیات وصول کرنے کے الزام کا سامنا بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/39G3R
Deutschland AfD Parteitag in Magdeburg
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور اب اُس کے پاس جرمن عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کچھ باقی بچا نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جماعت کو مزید سیاسی استحکام کے لیے اپنے بیانیے میں تبدیلی لانی ہو گی۔

اے ایف ڈی گزشتہ برس اکتوبر میں ملکی پارلیمان میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ رواں برس جرمن ریاست ہیسے کی اسمبلی میں بھی وہ تیرہ فیصد ووٹ لے کر سیٹیں حاصل کر چکی ہے۔ اس طرح وفاقی پارلیمان کے ساتھ ساتھ تمام ریاستی اسمبلیوں میں اس دائیں بازو کی اراکین موجود ہیں۔ دوسری جانب اس کی مقبولیت پندرہ فیصد پر پہنچ کر رک گئی ہے۔ یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔

الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کو ایک اور مشکل کا بھی سامنا ہے اور وہ الزام ہے کہ اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یورپی یونین سے باہر یعنی سوئٹزرلینڈ سے عطیات وصول کیے ہیں۔ یہ الزام اس کی ساکھ کو اگلے ہفتوں میں متاثر کر سکتا ہے کیونکہ اس نے اُن تمام پارٹیوں کو بد دیانت اور کرپٹ قرار دے رکھا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کی حامی تصور کی جاتی ہیں۔

Frauen beten in der Sehitlik-Moschee in Berlin
اے ایف ڈی نے رواں برس عوامیت پسندی کی ساکھ ختم کرنے کے لیے اسلام مخالف پیگیڈا سے دوری اختیار کر لی ہےتصویر: Getty Images/O. Messinger

اس الزام کا زیادہ بوجھ اے ایف ڈی کی شریک لیڈر ایلس وائیڈل پر محسوس کیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اُن کی پارٹی کو سوئٹزرلینڈ سے ایک لاکھ تیس ہزار یورو ایک دائیں بازو کے صاحب ثروت نے دیے ہیں۔ ایلس وائیڈل نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عطیے کو شکریے کے ساتھ واپس کیا جا چکا ہے۔ جرمن دفتر استغاثہ ملکی پارلیمنٹ سے درخواست کر چکا ہے کہ وہ اے ایف ڈی کی شریک لیڈر کا تفتیشی استثنیٰ ختم کرے تا کہ اُن سے بازپرس کی جا سکے۔

اے ایف ڈی کی ایک اور سردردی یہ ہے کہ اندرونی طور پر اعتدال پسند اور سخت موقف کے حلقوں میں منقسم ہے۔ اس جماعت نے رواں برس اپنی عوامیت پسندی کی ساکھ ختم کرنے حوالے سے اسلام مخالف تحریک پیگیڈا سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ایسا بھی خیال کیا گیا ہے کہ اے ایف ڈی میں ایسے انتہائی دائیں بازو کے نوجوان بھی شامل ہو چکے ہیں، جن پر جرمن خفیہ ادارے نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب ایک اور سیاسی جماعت گرین پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ بیس فیصد کی عوامی مقبولیت کے ساتھ جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی کا روپ دھار چکی ہے۔ پہلی بڑی پارٹی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) ہے۔ گرین پارٹی خود جرمن سیاسی منظر پر متبادل کا متبادل قرار دیتی ہے۔