امداد غیرمسلموں کے لیے نہیں؟
6 مئی 2020پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے انسداد کے لیے لاک ڈاؤن کو کئی ہفتے گزر چکے ہیں، گو کہ متعدد شعبوں میں اب کسی حد تک نرمی کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم اب بھی لاکھوں افراد کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے امداد کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں اس لاک ڈاؤن کے دوران متعدد خیراتی تنظیموں اور گروپوں کی جانب سے مستحق افراد کے لیے خوارک اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی کی سرگرمیاں جاری ہیں، تاہم پاکستان میں مختلف مقامات سے ایسے خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں، جہاں اقلیتوں کو خوراک اس شرط پر دینے کا کہا گیا کہ اگروہ مذہب تبدیل کریں۔ اس سے قبل ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ مسلمان نہ ہونے کی بنیاد پر بعض ضرورت مندوں کو خوارک دینے سے ہی انکار کر دیا گیا۔
خبر رساں ادارے کے این اے نے پاکستان میں اقلیتی برادری کے نمائندوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مختلف مقامات پر مذہبی خیراتی تنظیم کے کارکنان کی جانب سے ہندوؤں اور مسیحیوں کو خوراک کے بدلے تبدیلی مذہب پر مجبور بھی کیا گیا۔
ایسوسی ایشن آف سوشل مائنوریٹیز کے چیرمین انجم جیمز پال نے کہا، " ہم ایسی امدادی تنظیموں کی قدر کرتے ہیں، جو کسی مفاد کے بغیر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ "
انہوں نے مزید کہا، "غیرمسلم ممالک ہماری مدد بغیر مذہب کی تبدیلی کی شرط رکھے بغیر کرتے ہیں، بہ راہ مہربانی ضرورت مندوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس مت پہنچائیں۔"
کورونا کی وبا کے دوران مذہبی بنیادوں پر تفریق کے اسی طرز کے واقعات مختلف ممالک میں دکھائی دیے۔ مذہب کی بنیاد پر امداد نے ملنے سے متعلق ایسی ہی رپورٹیں بھارت سے بھی سامنے آئیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی رپورٹوں کے مطابق ہندو امدادی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کو خوراک فراہم کرنے سے انکارکیا۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی جانب سے ایک بیان میں ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کمیشن کی سربراہ انوریما بھارگاوا نے کہا، "ایسے اقدامات افسوس ناک ہیں۔"
ان کا کہنا تھا، "ایک ایسے موقع پر جب کورونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے ایسے اقدامات افسوس ناک ہیں۔"
ان کا مزید کہنا ہے، "ایک ایسے موقع پر جب کووِڈ انیس پھیل رہا ہے، پاکستان میں غریب افراد اپنے اور اپنے خاندان کو بھوک سے بچانے کی لڑائی میں بھی مصروف ہیں۔ امدادی خوراک مذہب کی بنیاد پر نہ دینے جیسے اقدامات کسی صورت نہیں ہونا چاہیئں۔ ہم پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امدادی تنظیموں کی جانب سے ہندوؤں، مسیحیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے لیے برابر تقسیم کویقینی بنائے۔"
یہ بات اہم ہے کہ اس امریکی کمیشن کی سال 2019 سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہندو اور مسیحی سلامتی کے خطرات کا سامنا کرنے سمیت مختلف طرز کے سماجی مسائل کا شکار ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادیء مذہب نے واشنگٹن انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ بھارت کو مذہبی آزادی سے متعلق بلیک لسٹ میں داخل کر دے۔ اپنی سالانہ رپورٹ میں اس امریکی کمیشن نے کہا تھا کہ وزیراعظم نیرندر مودی کی قیادت میں بھارت میں اقلیتوں پر نمایاں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کو بھارتی حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں داخل کیا جانا چاہیے جہاں اقلیتوں کی حالت "خصوصاً باعث تشویش" ہے تاکہ حالات بہتر نہ بنانے پر اسے پابندیاں کا نشانہ بنایا جا سکے۔