امداد کے بدلے افغانستان کے قدرتی وسائل سے حصہ چاہیے، ٹرمپ
3 اگست 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغان جنگ کے حوالے سے شبہات کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں نئی امریکی حکمت عملی تاخیر کا شکار ہے۔ امریکی حکام نے انیس جولائی کو وائٹ ہاؤس کے سیچوایشن روم میں ہونے والے ایک اجلاس کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر نے نیشنل سکیورٹی کے اعلیٰ حکام سے افغانستان میں ’’اختتامی صورتحال‘‘ سے متعلق مزید معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
آسان لفظوں میں صدر ٹرمپ اپنے سکیورٹی حکام سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افغان جنگ کا خاتمہ کیسے ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ افغان جنگ کا اختتام کب اور کیسے ہوگا؟
بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں اس وقت ہلچل مچ گئی، جب امریکی صدر نے وزیر دفاع جیمز میٹس اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جوزف ڈنفورڈ سے کہا کہ وہ افغان جنگ نہ جیتنے کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فورسز کے سربراہ جنرل جان نکلسن کو برطرف کرنے کا سوچیں۔
معدنی ذخائر کے باوجود افغانستان خوشحالی سے دور
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اجلاس میں موجود ایک اہلکار کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اجلاس میں شریک اعلیٰ عہدیداروں سے کہا، ’’ہم جیت نہیں رہے‘‘۔ ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ اجلاس میں ایک مقام ایسا بھی آیا، جب ٹرمپ کے چیف اسٹریٹیجسٹ اسٹیو بینن اور وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایچ آر مک ماسٹر نے ایک دوسرے پر ’’چلانا‘‘ شروع کر دیا۔
’افغانستان لیتھیئم کا سعودی عرب بن سکتا ہے‘
بتایا گیا ہے کہ کچھ حکام صدر کے اس حیران کن شکوے کے بعد اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے کہ امریکی فوج افغان جنگ ہارنے کی اجازت دے رہی ہے۔ حکام کے مطابق وہاں موجود میٹس، مک ماسٹر اور دیگر اعلیٰ حکام ہر ممکن جواب دیتے رہے تاکہ نئی اسٹریٹیجی کے حوالے سے صدر کی منظوری حاصل کی جا سکے۔ اس حوالے سے ایک دوسرا اجلاس جمعرات کو ہوگا۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر افغانستان میں مزید فوجیوں کی تعیناتی کی اجازت دے دیں گے۔
اس اجلاس میں امریکی صدر اس بات پر بھی زور دیتے رہے کہ افغانستان کی مدد اور حمایت کے بدلے افغان حکومت سے ملک کے تقریباﹰ ایک ٹریلین ڈالر مالیت کے قدرتی ذخائر سے حصہ طلب کیا جائے۔
اس کے جواب میں سکیورٹی حکام نے کہا کہ پورے ملک پر کنٹرول حاصل کیے بغیر افغانستان کی معدنی دولت کی مارکیٹ میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔
پھر صدر ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں کام کرنے والی چینی کمپنیاں تو کان کنی میں منافع کما رہی ہیں۔