معدنی ذخائر کے باوجود افغانستان خوشحالی سے دور
23 نومبر 2011معدنی وسائل کے تخمینے، تلاش، صفائی، ترسیل اور فروخت کے لیے بہت سی سرمایہ کاری اور طویل عرصہ درکار ہے۔ ملک کے لیے بری خبر یہ ہے کہ 2014ء میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد اسے سکیورٹی کی مد میں سالانہ 5 بلین ڈالر کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔
اگر پیداوار تیزی سے شروع بھی ہو جائے تب بھی کان کنی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک کی حالت بدلنا مشکل ہے کیونکہ افغانستان میں بنیادی ڈھانچہ بری طرح تباہ ہو چکا ہے، خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے اور بیروزگاری 40 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔
کابل میں قائم Afghanistan Analysts Network کے شریک بانی ٹامس رٹنگ کا کہنا ہے، ’’افغانستان میں کان کنی ایک خوش آئند بات ہے مگر اس سے مقامی آبادی کی زندگی بہتر نہیں ہو گی۔ اکثر کمزور ریاستوں میں کان کنی کے نتیجے میں مزید تنازعات جنم لیتے ہیں۔‘‘
افغان حکام کا دعوٰی ہے کہ تانبے، خام لوہے، تیل و گیس، نیوبیم، کوبالٹ، سونے، مولبڈینم، چاندی اور لیتھیم کے ذخائر سے سالانہ 3.5 بلین ڈالر کی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ ملک کے قدرتی وسائل کے بارے میں زیادہ تر معلومات سوویت دور کی ہیں اور ارضیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کان کنی شروع کرنے سے قبل ان کا درست تخمینہ لگانا ضروری ہے۔
افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعے کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے منصوبوں پر آنے والی لاگت بھی لاکھوں ڈالر بنتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں مغربی کان کن کمپنیاں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہی ہیں۔
ٹورانٹو میں میکلوڈ ڈکسن کمپنی کے کان کنی کے امور سے متعلق ایک وکیل رچرڈ لیچسک نے کہا، ’’لوگ افغانستان جیسے ملک میں اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ ملک میں ابھی اس لحاظ سے استحکام نہیں آیا۔‘‘
چین کی میٹالرجیکل کارپوریشن کی زیر قیادت بعض کمپنیوں کے کنسورشیم نے 2008ء میں کابل کے نزدیک اینک نامی تانبے کے ذخائر کی کان کنی کا پہلا بڑا ٹھیکہ حاصل کیا تھا اور اس وقت بھارت کی فرمیں حاجیجک نامی خام لوہے کے ذخیرے کے لیے بولی دے رہی ہیں۔
اینک منصوبے کے لیے بولی دینے والی کمپنیوں سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ کان کنی کے دوران مقامی افغان باشندوں کی سماجی ترقی سے بھی وابستگی ظاہر کریں گی۔
اینک کے ٹینڈر کے عمل کے دوران افغان وزارت برائے کان کنی کے ایک مشیر جیمز ییگر نے کہا، ’’چینی اور دیگر کمپنیوں نے کہا تھا کہ وہ مقامی سطح پر افغان باشندوں کو ملازمتیں دیں گی، مگر اب وہ اپنے لوگوں کو لے آئے ہیں، انہوں نے اپنا سامان چین سے خرید کر یہاں منتقل کیا ہے، جس سے افغان عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔‘‘
کابل یونیورسٹی کے ایک ماہر اقتصادیات سید مسعود نے خبردار کیا ہے کہ ان کانوں کے ٹھیکے دینے میں جلد بازی سے گریز کیا جائے کیونکہ اس وقت ان سے کم آمدنی ہونے کی توقع ہے۔ تاہم چند سال بعد ان سےکہیں زیادہ آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ