شمالی وزیرستان میں فائرنگ سے چار خواتین ہلاک
22 فروری 2021خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شمالی وزیرستان کے پولیس سربراہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ نا معلوم مسلح افراد نے خواتین امدادی کارکنوں کی گاڑی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ سیف اللہ گنڈاپور کے مطابق یہ خواتین ایک اين جی او کی کارکنان تھیں جو دیگر خواتین کو تربیت فراہم کرتی ہے۔
گنڈا پور کے مطابق، ''ان خواتین کو دہشت گردوں کی طرف سے ہدف بنایا گیا اور قتل کیا گیا ہے۔ مگر یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ اس میں کون سا گروپ ملوث ہے۔‘‘
شمالی اور جنوبی وزیرستان: چلغوزے کے باغات کی تباہی کی کہانی
تحريک طالبان پاکستان اور بلوچ عليحدگی پسندوں کے حملے، سکيورٹی دستے نشانے پر
روئٹرز کے مطابق ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے، جو خواتین کی تعلیم و تربیت کے مخالف ہیں، پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں خواتین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پاکستانی طالبان نے 2012ء ميں سوات میں فائرنگ کر کے ملالہ يوسف زئی کو شدید زخمی کر دیا تھا کیونکہ وہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرتی تھیں۔ ملالہ کو علاج کی غرض سے برطانیہ شفٹ کیا گیا تھا۔ انہیں 2014ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا اور وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت بن گئی تھیں۔
روئٹرز کے مطابق پیر 22 فروری کو ہونے والا فائرنگ کا یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغان سرحد سے متصل ان علاقوں میں تشدد میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ علاقے کبھی القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کا گڑھ رہے ہیں جس کے بعد پاکستانی فوج نے عسکری آپریشن کر کے اس علاقے کو شدت پسندوں سے پاک کیا تھا۔
ان سابقہ قبائلی علاقوں کو پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیے جانے کے بعد سے ان علاقوں کو سویلین حکام کے حوالے کرنے کا عمل جاری ہے۔
مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات سميت ملک کے دیگر حصوں میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کیے جانے والے حملوں میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی شہری مارے جا چکے ہيں۔ ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے باوجود یہ اب بھی کبھی کبھار حملے کرتے رہتے ہیں۔
ا ب ا / ع س (روئٹرز، ڈی پی اے)