امدادی کیمپوں میں بچوں کی اموات میں تیزی سے اضافہ
18 اگست 2010کندھ کوٹ کارہائشی بچل ظالم سیلاب کی بے رحم موجوں میں اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی لٹاکراپنے خاندان کے ہمراہ بمشکل کراچی پہنچا اور یہاں پہنچ کر بچل اور اسکے خاندان کو سر چھپانے کو گلشن معمار میں قائم کئے جانے والے ریلیف کیمپ میں جگہ ملی۔ لیکن دیگر ہزاروں پناہ گزینوں اور سینکڑوں مدد گاروں کے درمیاں تین دن گزارنے کے بعد بچل اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اسے کیمپ چھوڑ کر شہر منتقل ہوجانا چاہیے۔
بچل کا کیمپ سے نکلنا بھی آسان نہیں۔ جمع پونچی تو پانی کی بے رحم موجیں بہا کر لے گئیں۔ اور ٹیکسی ڈرائیور گلشن معمار سے کورنگی ضیاء کالونی لے جانے کے دو ہزار روپے طلب کرتا ہے۔ اس کیمپ میں آنے والے ہرخاندان کی کہانی بچل سے ملتی جلتی ہے۔ تقرییاً دو ہزار متاثرین افراد کے لیے صرف چار ڈاکٹر ہیں۔ جبکہ متاثرین سیلاب میں مقامی افراد کے شامل ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں مزید دشواریاں پیدا ہورہی ہیں۔ اور پھر اس غم زدہ ماحول میں نومولود کی موت نے ماحول کو اور بھی دل گرفتہ کردیاہے۔
چند روز قبل دنیا میں آنکھ کھولنے والا واجد علی طبیعت کی ناسازی کے باعث کیمپ سے گزشتہ رات جناح اسپتال منتقل کیا گیا اور آج صبح ہی وہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔ واجد کا چچا اپنی گود میں ایک اور بیمار بیٹی کو لئے اپنا دُکھڑا رو رہا تھا۔
دو ہزار نفوس پر مشتمل اس ریلیف کیمپ میں قائم ایمرجنسی ڈسپینسری میں تعینات ڈاکٹروں کے مطابق آج صبح آٹھ بجے سے دوپہر دو بجے تک پانچ سو سے زائد سیلاب زدگان کو طبی امداد فراہم کی گئی ہیں۔ جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جومعدے کے امراض اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔آج بھی اس کیمپ میں دو بچے ڈائریا کی وجہ سے ہلاک ہوگئے جبکہ دیگر آٹھ بچوں کو نیم بے ہوشی کی حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ یوں اب تک سیلاب متاثرین کے اس کیمپ میں گزشتہ دو روز میں ڈائریا سے پانچ بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔
شہری حکومت متاثرین کی کراچی میں داخلے پر ہی رجسٹریشن کو یقینی بنانے کے لیے ٹول پلازہ پر ہی کیمپ قائم کررہی ہے۔ اور یہیں سے کچھ دور دنبہ گوٹھ میں دو زیر تعمیر مدارس میں ٹُھل سے آنے والے ڈھائی سو سیلاب زدگان حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ سیلاب زدگان کو یہ بھی گلا ہے کہ انہیں سیلاب سے بچانے تو کوئی نہیں آیا۔ اور یہاں بھی انہیں بے یارو مددگار چھوڑدیا گیاہے۔
ٹُھل شہر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے مارے یہ لوگ اپنی مددآپ کے تحت جانیں بچانے میں تو کامیاب رہے۔ لیکن حکومتی عہدیداروں کی بے حسی کے باعث یہاں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید
ادارت: کشور مصطفٰی