1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے لئے جرمن امداد غلط ہاتھوں ميں نہیں، ڈرک نیبل

17 اگست 2010

دنيا کے کئی دیگر ملکوں ميں قدرتی آفات کی طرح پاکستان سے متعلق بڑا مسئلہ بھی يہی ہے کہ امدادی رقوم کو بدعنوان سرکاری اہلکاروں سے کس طرح بچايا جائے۔ اس سلسلے میں جرمن امداد صرف صحیح ہاتھوں میں پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/OpV4
ڈرک نیبل کا تعلق فری ڈیموکریٹک پارٹی سے ہےتصویر: AP

پاکستان ميں بارشيں تھمنے کو ہی نہيں آ رہیں۔ ملک اپنی تاريخ کی بد ترين قدرتی آفت کا سامنا کر رہا ہے۔ لاکھوں انسان بے گھر ہوچکے ہيں اورمعيشی ڈھانچے، املاک اور فصلوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کے سيکريٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان کی صورتحال کو دل شکستہ کر دينے والی حالت قرار ديا اور عالمی برادری سے اپيل کی کہ وہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ امدادی رقوم مہيا کرے۔

مصيبت کی اس گھڑی ميں دوسرے ممالک اور عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ جرمنی بھی پاکستان کی امداد ميں شريک ہے۔ جرمن حکومت نے 15 ملين ڈالر کے برابر امداد کا وعدہ کيا ہے۔

Pakistan Überschwemmung Flut
پاکستانی تاریخ کے شدید ترین سیلاب سے قریب دو کروڑ شہری متاثڑ ہوئےتصویر: DW

جرمنی کے ترقياتی امداد کے وفاقی وزير ڈِرک نيبل نے کہا ہے کہ اس امداد کے سلسلے ميں عالمی قانون کے حوالے سے تمام تر تيارياں مکمل ہو چکی ہيں۔ يہ 15 ملين ڈالر صرف وہ رقم ہے جو جرمنی پاکستان کو براہ راست دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ يورپی يونين کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد ميں بھی جرمنی کا حصہ 20 فيصد ہے اور عالمی بينک کی اعلان کردہ امداد ميں بھی جرمنی چار فيصد رقم دے رہا ہے۔

ليکن جرمن وزیر نیبل نے کہا کہ اس وقت سب سے اہم سوال يہ نہيں کہ کتنی رقم امداد کے لئے دی جا رہی ہے، بلکہ مسئلہ يہ ہے کہ ايسے ڈھانچے اور انتظامات موجود ہوں، جن کے ذريعے امدادی رقوم کو اس طرح استعمال کيا جا سکے کہ غذائی اشياء،پینے کا پانی اور ادويات متاثرہ انسانوں تک پہنچائی جا سکيں۔ اس وقت ان سب کا انتظام کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

ترقياتی امداد کے وفاقی جرمن وزير نيبل نے يہ بھی کہا کہ جرمنی اس قسم کی قدرتی آفات کے متاثرين کو مدد دينے کے لئے پچھلے کئی برسوں سے عالمی غذائی پروگرام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی خود جرمن رياستی اور غير حکومتی تنظيموں سے بھی اشتراک عمل کرتا ہے۔ اکثر یہ تنظیمیں متاثرہ علاقوں کے ساتھ کئی عشروں پر محیط عرصے سے رابطوں میں ہوتی ہیں۔

Pakistan Überschwemmung Flutkatastrophe Hilfe für Flüchtlinge
پاکستان کے سیلابی متاثرین، امدادی اشیاء کے حصول کے لئے تگ و دوتصویر: AP

يہ اس بات کا بہترين ثبوت ہے کہ امدادی رقوم کے خرد برد کئے جانے اور کرپٹ سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں ميں جانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

موقع پر موجود غير حکومتی تنظيموں کے ساتھ کام کرنے کا فائدہ يہ ہے کہ يہ تنظيميں کرپشن کے خطرات سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ يہ بھی جانتی ہيں کہ امداد کو صحيح جگہ تک پہنچانے کے لئے کون سے ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہيں۔

ڈِرک نيبل نے مزيد کہا: ’’مثال کے طور پر ہم Care International کے ساتھ بھی مل کر کام کرتے ہيں، جس کے کارکن وہاں موقع پر موجود ہيں۔ اسی طرح ہمارا Misereor کے ساتھ بھی اشتراک عمل ہے۔ يہ تنظيمیں اس کا انتظام کريں گی کہ تعمير نو کے مرحلے ميں لوگوں کو دوبارہ رہائشی سہولیات میسر ہوں۔ ہم نے وزارت خارجہ اور وزارت ترقياتی امداد کے درميان تقسيم کار کا اصول اپنا رکھا ہے۔ وزارت خارجہ زيادہ تر ادويات، پانی اور انسانی بنیادوں پر امداد پر توجہ ديتی ہے اور ترقياتی امداد کی جرمن وزارت اشیائے خوراک کی فراہمی پر۔ اس کے علاوہ ترقياتی امداد کی وزارت اس کا اہتمام بھی کرتی ہے کہ لوگوں کو پھر سے سر چھپانے کی جگہ مل سکے۔‘‘

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں