امریکا: جو بائیڈن کی جیت پر مہر ثبت، لیکن...
15 دسمبر 2020جو بائیڈن نے باضابطہ اگلا امریکی صدر منتخب ہونے کے لیے الیکٹورل کالج کے ضروری 270 ووٹ پیر کو حاصل کرلیے۔ کیلیفورنیا سے 55 ووٹ ملنے کے ساتھ ہی انہوں نے یہ سنگ میل پار کرلیا۔ اس کے بعد ہوائی کے ووٹوں کے ساتھ بائیڈن کے ووٹوں کی تعداد 306 ہو گئی جب کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صرف 232 ووٹ حاصل ہوئے۔
الیکٹورل کالج کی طرف سے اپنی کامیابی کی تصدیق کیے جانے کے بعد بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا”اس قوم میں ایک طویل عرصے پہلے جمہوریت کی شمع روشن کی گئی تھی۔ اور اب ہم جانتے ہیں کہ کچھ بھی یہاں تک کہ وبا یا طاقت کا غلط استعمال بھی اس شمع کو نہیں بجھا سکتا۔‘‘
بائیڈن نے مزید کہا ”اب ایک نئے باب کو شروع کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر قوم کی بھلائی کے لیے کام کر سکتے ہیں۔"
ٹرمپ کے دعووں کی تردید
ٹرمپ صدارتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے ہی اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔ پیر کے روز انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مشیگن کاونٹی میں ووٹوں کی گنتی کے جو نتائج ظاہر نہیں کیے گئے ہیں وہ'انتخابی نتائج کو تبدیل‘ کرسکتے ہیں۔
ٹوئٹر نے تاہم ان کے اس دعوے کو متنازعہ زمرے میں ڈال دیا۔
جو بائیڈن نے ٹرمپ کی جانب سے ان الزامات اور انتخابات کے نتائج کو مسترد کرانے کے لیے مختلف ریاستوں میں ان کی طرف سے مقدمات دائر کرنے پر موجودہ صدر کی شدید تنقید کی۔
نو منتخب صدر بائیڈن نے کہا ”یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جس میں لوگوں کی خواہش کا احترام کرنے سے انکار کیا گیا ہو۔ قانون کی حکمرانی کا احترام کرنے سے انکار کیا گیا ہو اور ہمارے آئین کا احترام کرنے سے انکار کیا گیا ہو۔"
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ریپبلکن اتحادی الیکشن نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے 'لوگوں کی رائے کا احترام نہ کر کے، آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
بائیڈن کا اشارہ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے دائر کردہ اس مقدمے کی جانب تھا جو الیکشن نتائج کو تبدیل کروانے کے لیے دائر کیا گیا تھا اور جسے صدر ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے۔ اس مقدمے کے ذریعے کئی اہم ریاستوں میں بائیڈن کی جیت کے فیصلے کو تبدیل کرانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن گذشتہ جمعے کو سپریم کورٹ نے اسے مسترد کردیا تھا۔
نو منتخب صدر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے پاس عدالت میں نتائج کو چیلنج کرنے کا پورا موقع مل چکا ہے ”لیکن کسی بھی کیس میں ان کے پاس ان نتائج کو بدلنے، ان پر سوال اٹھانے یا ان کو متنازع ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔" انہوں نے ری پبلیکن پارٹی کی جانب سے صدر ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ ہفتے اس پر ’ایک واضح فیصلہ‘ دے دیا ہے۔
بائیڈن نے الیکشن افسران کے خلاف تشدد کی دھمکیوں کی بھی مذمت کی۔ انہوں نے عہدے داروں کو ہراساں کرنے کے واقعات کو 'غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’مجھے امید ہے کہ ہم پھر کبھی کسی کو اس قسم کے خطرات اور بدسلوکی کا نشانہ بنتے نہیں دیکھیں گے جیسا ہم نے انتخابات کے دوران دیکھا ہے۔“
الیکٹورل کالج کیا ہے؟
الیکٹورل کالج نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کرلی ہے کیوں کہ ٹرمپ نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
امریکا میں صدارتی انتخابات میں کسی امیدوار کی کامیابی کا انحصار صرف عوام کے ووٹ پر نہیں ہوتا۔ جب عام ووٹر صدارتی انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ تکنیکی طورپر بیلٹ پر موجود امیدوار کو براہ راست ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ اس کے بجائے ان کے ووٹ الیکٹورل کالج میں پسندیدہ امیدوار کا انتخا ب کرنے والوں کو ڈالے جاتے ہیں۔
انتخابات کے موقع پر جب ووٹرز ذاتی طور پر یا میل کے ذریعے اپنے ووٹ ڈالتے ہیں تو الیکشن اہلکاروں کی جانب سے ان ووٹوں کی تصدیق کرنے کے بعد ریاستی عہدیدار اور گورنر ان کے نتائج کی جانچ کرتے ہوئے ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ جس کے بعد ان ریاستوں کے الیکٹورل کالج کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔
امریکی آئین کے تحت تمام 50 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی سے الیکٹورل کالج کے 538 ووٹ ہیں جن میں سے ایوان نمائندگان کے ہر رکن کے لیے ایک، امریکی سینیٹ کے ہر رکن کے دو اور واشنگٹن ڈی سی سے اراکین کے تین ووٹ ہیں۔ یہ بالعموم اپنے ریاستی دارالحکومت میں اجلاس منعقد کرکے صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔
33 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی نے قانونی طور پر الیکٹورل کالج کے ارکان کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے کو فاتح قرار دیں گے۔ جبکہ دیگر 17 ریاستوں میں الیکٹورل کالج کے ارکان کسی اور کو ووٹ دے سکتے ہیں۔
اب کیا ہوگا؟
امریکی کانگریس کی میٹنگ 6 جنوری کو ہوگی جس میں الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی تصدیق کی جائے گی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر الیکٹورل کالج بائیڈن کی جیت کی تصدیق کردیتا ہے تو وہ اپنے عہدے سے دست بردار ہوجائیں گے۔
نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہیرس کو 20 جنوری 2021 کو ان کے عہدوں کا حلف دلایا جائے گا۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)