امریکا اور اسرائیل یونیسکو سے علیحدہ
13 اکتوبر 2017امریکا نے اقوام متحدہ کے ثقافتی، سائنسی، اور تعلیمی ادارے یونیسکو پرجانبدارنہ رویہ اپنانے اور اس میں انتظامی اصلاحات میں ناکامی پر علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی واشنگٹن نے یونیسکو کی مالی معاونت بھی معطل کر دی ہے۔ امریکی اعلان کے بعد اسرائیل نے بھی اس ادارے کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے فیصلے پر بعض ملکوں کی جانب سے تشویش اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
برفانی دور کی جرمن غاریں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل
ہیبرون کا قدیمی حصہ یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل
عالمی ثقافتی ورثے میں نیا اضافہ
دنیا کا ہر دسواں بچہ اسکول نہیں جا پاتا
امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ یونیسکو سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلے کوئی آسان عمل نہیں لیکن یہ اُس امریکی تشویش کو ظاہر کرتا ہے جو اس ادارے میں بنیادی تبدیلیوں سے متعلق ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یونیسکو اسرائیل کے ساتھ متعصبانہ رویہ بھی رکھتا ہے۔ امریکا نے ادارے کے مالی معاملات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے امریکی فیصلے کو جرات مندانہ اور اخلاقی اقدار مبنی قرار دیا ہے۔
یونیسکو کی سبکدوش ہونے والی سربراہ ایرینا بوکوفا نے امریکی فیصلے پرتاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ادارے کی کثیر القومی شناخت پر ضرب پڑے گی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی امریکی فیصلے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بدستور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ روابط کو بحال اور برقرار رکھیں گے۔
روس کی وزارت خارجہ نے بھی واشنگٹن حکومت کے فیصلے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب یونیسکو ایک مشکل صورت حال سے نبرد آزما ہے۔ اقوام متحدہ میں تعینات فرانسیسی سفیر کا کہنا ہے کہ یونیسکو کلچر، تعلیم اور سائنس کی تشہیر اور فروغ کا ادارہ ہے اور اس میں امریکا کی ضرورت ہے۔
سن 1984 میں امریکی صدر رونالڈ ریگن کے دور میں بھی امریکا یونیسکو میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور امریکا مخالف پالیسوں پر علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔ سن 2002 میں صدر جارج ڈبلیو بُش نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ سن 2011 سے امریکا اور یونیسکو کے تعلقات میں بگاڑ اُس وقت پیدا ہونا شروع ہوا جب رکن ملکوں نے فلسطین کو ایک رکن کے طور پر منتخب کیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کی مالی معاونت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس عالمی ادارے کے امن دستوں پر اٹھنے والے 7.3 بلین ڈالر میں سے 28.5 فیصد امریکا فراہم کرتا ہے اور 5.4 بلین ڈالر کے مساوی مرکزی بجٹ میں بھی امریکا کا حصہ بائیس فیصد ہے۔