امریکا اور چین کی تجارتی جنگ کی شدت میں کمی
2 دسمبر 2018ارجٹنائن میں جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے اختتام پر امریکی اور چینی صدور نے کہا کہ دنیا کی یہ دونوں بڑی معیشتیں چاہتی ہیں کہ عالمی تجارتی ضوابط پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں اصلاحات کی جائیں۔ بیونس آئرس میں ایک عشائیے میں ٹرمپ اور شی کے ساتھ ساتھ امریکی اور چینی وفود بھی شریک ہوئے۔
ٹرمپ نے عشائیے سے قبل کہا، ’’میرے صدر شی کے ساتھ خصوصی روابط ہیں۔ اور میرے خیال میں یہ بنیادی وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے نتیجہ پر پہنچنا چاہتے ہیں جو چین اور امریکا کے لیے بہتر ہو۔‘‘ اس پر شی نے جواب دیا، ’’ہم صرف تعاون سے ہی اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں، امن و خوشحالی کے ساتھ‘‘۔
اس ملاقات کے بعد چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ فریقین اس نتیجے پر پہنچیں ہیں کہ فی الحال مزید اضافی محصولات عائد نہیں کیے جائیں گے۔‘‘ ٹرمپ نے بات چیت میں پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں نئی اضافی ڈیوٹی کے نفاذ کی دھمکی بھی دی تھی۔
وانگ یی کے بقول، ’’مرکزی معاہدے کے تحت یہ اتفاق ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اقتصادی مزاحمت کو مزید بڑھنے سے روکا جائے گا اور دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند تعاون کے نئے راستے تلاش کیے جائیں گے‘‘۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا اور چین نے تجارتی مذاکرات مزید نوے دن تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس دوران چینی مصنوعات پر مزید محصولات عائد نہیں کیے جائیں گے، ’’ اگر فریقین نوے دن کے دوران کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ پائے تو اضافی محصولات کی شرح کو دس فیصد سے بڑھا کر پچیس فیصد کر دیا جائے گا۔‘‘
ان دونوں رہنماؤں کے مابین ہونے والے ان تجارتی مذاکرات کا مالیاتی منڈیوں کی جانب سے بغور جائزہ لیا گیا کیونکہ بات چیت بے نتیجہ رہنے کی صورت میں عالمی اقتصادی نمو کے متاثر ہونے کا خدشہ موجود تھا۔
واشنٹگن اور بیجنگ گزشتہ مہینوں کے دوران ایک دوسرے کی مصنوعات اربوں ڈالر کے محصولات عائد کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے اگلے مہینے یعنی جنوری میں چینی مصنوعات پر مزید پچیس فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کا عندیہ دیا ہوا ہے۔