1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا، ایران جوہری معاہدے کو 'مستحکم‘ کرنے کا خواہشمند

23 فروری 2021

 اگر ایران جوہری معاہدے پر 'سختی سے عمل‘ کرتا ہے تو امریکا اس معاہدے میں واپس لوٹ سکتا ہے۔ تاہم نئے اشاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تہران مصالحت کی جانب نہیں، بلکہ اس سے دور جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3pjNM
Iran - Atomabkommen | US-Staatssekretär Antony Blinken
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

 

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے جینیوا میں پیر کے روز اقوام متحدہ کی جانب سے منعقدہ تحدید اسلحہ کانفرنس کے دوران عہد کیا کہ امریکا اور اس کے ساتھی ممالک ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو”آگے بڑھانے اور مستحکم کرنے" کے لیے کام کریں گے۔

بلینکن نے کہا کہ اسی کے ساتھ ساتھ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ''خطے کو غیر مستحکم کرنے کے ایران کے رویے اور بیلسٹک میزائلوں کی ترقی اور توسیع" کے مسئلے سے بھی نمٹے گی۔

بلینکن کا کہنا تھا ”امریکا اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اپنے عہد پر اب بھی قائم ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔ اور اس ہدف کو حاصل کرنے لیے سفارت کاری سب سے بہترین راستہ ہے۔"

بلینکن نے کہا کہ اگر ایران سن 2015 کے معاہدے پر سختی سے عمل شروع کر دیتا ہے تو بائیڈن انتظامیہ بھی ایسا ہی کرے گی۔

ایران کی دھمکی

دریں اثنا ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اسلامی جمہوریہ 60 فیصد خالص تک یورینیم افزودہ کر سکتا ہے۔

سرکاری ٹیلی ویزن نے خامنہ ای کے حوالے سے بتایا”ایران کی یورینیم افزودہ کرنے کی سطح 20 فیصد تک محدود نہیں رہے گی۔ ہم ملک کی ضرورتوں کے مطابق اس کی سطح میں اضافہ کریں گے۔ ہم اسے بڑھا کر60 فیصد تک لے جا سکتے ہیں۔"

خامنہ ای نے مزید کہا کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کے سلسلے میں کسی کے دباو میں نہیں آئے گا۔

 امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے خامنہ ای کے بیان کو'دھمکی‘ قرار دیتے ہوئے اس پر مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

Iran I Atomkraft I Brand I Atomanlage Natanz
معاہدے کے مطابق جوہری تنصیبات میں موجود کیمرے چلتے رہیں گے لیکن ان کی فوٹیج آئی اے ای اے کو نہیں دی جائے گی۔تصویر: picture-alliance/AP

عارضی حل یا اہم کامیابی

دریں اثنا ایران نے بین الاقوای توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدے کو 'اہم کامیابی‘ قرار دیا ہے۔

اس معاہدے کے بعد سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے وقت مل گیا ہے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس معاہدے سے سن 2018 میں یک طرفہ الگ ہوجانے کے بعد نا کام ہونے کی دہلیز پر پہنچ گیا تھا۔

آئی اے ای اے کے سربراہ رفائیل گراسی کے اتوار کے روز دورہ تہران کے بعد فریقین نے ایک 'عارضی حل‘ تلاش کر لیا ہے۔ اس کے تحت  ایران اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینا جاری رکھے گا لیکن تین ماہ تک غیر جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت نہیں دے گا۔

عالمی توانائی ایجنسی کے مطابق تہران تین ماہ تک نگرانی کے آلات اور کچھ سرگرمیوں کا ریکارڈ بھی اپنے پاس رکھے گا۔ اس عرصے میں ان تنصیبات میں موجود کیمرے چلتے رہیں گے لیکن ان کی فوٹیج آئی اے ای اے کو نہیں دی جائے گی۔

ایران کے جوہری ادارے کا کہنا ہے ”اگر تین ماہ میں ایران پر عائد پابندیاں نہ اٹھائی گئیں تو یہ فوٹیج ڈیلیٹ کر دی جائے گی۔"

رفائیل گراسی کا کہنا تھا کہ ایک''عارضی حل‘‘تلاش کرلیا گیا ہے جو بین الااقوامی توانائی ایجنسی کو ایرانی جوہری تنصیبات کی ضروری نگرانی اور معائنے کی اجازت دے گا۔

دوسری جانب ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید کاتب زادہ کا کہنا تھا''مذاکرات میں اہم تکنیکی کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔"

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں