1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: فوجی حملوں میں شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کا ایکشن پلان

28 جنوری 2022

امریکی فوجی کارروائیوں میں دیگر ملکوں کے بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر امریکا کو اکثر سبکی اٹھانی پڑی ہے۔ پینٹاگون کو حکم دیا گیا ہے کہ ایک ایسا 'ایکشن پلان' بنائے جس سے فوجی حملوں میں شہری ہلاکتوں کو کم کیا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/46D3O
Belgien Brüssel | US Verteidigungsminister Lloyd Austin mit NATO Partnern
تصویر: PASCAL ROSSIGNOL/REUTERS

امریکا کی جانب سے متعدد ملکوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران درجنوں عام شہریوں کی بلا جواز ہلاکتوں پر ہونے والی عالمی نکتہ چینی کے بعد وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کے روز امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کو فوج میں اصلاحات کا حکم دیا تاکہ شہریوں کی بلا ضرورت ہلاکتوں سے بچاجا سکے۔

آسٹن نے اس حوالے سے پنٹاگون کے حکام کو ایک منصوبہ تیار کرنے کے لیے 90دن کا وقت دیا ہے کہ فوجی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے اور بلا جواز کارروائیوں سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور عراق کے تجربات سے سیکھنے اور ایک ادارہ جاتی طریقے سے شہریوں کے نقصان کو کم کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے یہ حکم ایسے کئی واقعات کے بعد دیا ہے جب امریکی فوجیوں کی جانب سے غیر ضروری شہری ہلاکتوں پر امریکا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے دوران میں اگست 2021 میں کابل پر امریکی فوج کے ایک ڈرون حملے میں "غلطی سے" سات بچوں سمیت دس عام شہری ہلاک ہوگئے تھے۔

اسی طرح مارچ 2019 میں عراق میں داعش کے خلاف جنگ کے آخری دنوں میں امریکی فوج کی بمباری میں تقریباً 70 شہری ہلا ک ہوگئے تھے۔

امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز میں اس خبرکی اشاعت کے بعد پینٹاگون کو خاصی سبکی اٹھانی پڑی تھی۔ اخبار نے اسے امریکی فوج کی ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ امریکی فوج نے اس واقعے کی تحقیقات اور اہلکاروں کا احتساب کرنے سے گریز کیا۔

کابل پر امریکی فوج کے ایک ڈرون حملے میں "غلطی سے" سات بچوں سمیت دس عام شہری ہلاک ہوگئے تھے
کابل پر امریکی فوج کے ایک ڈرون حملے میں "غلطی سے" سات بچوں سمیت دس عام شہری ہلاک ہوگئے تھےتصویر: Khwaja Tawfiq Sediqi/AP Photo/picture alliance

امریکی تھنک ٹینک نے بھی تنقید کی ہے

اس سے قبل پینٹاگون نے ایک تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کو اس مسئلے پر اپنی تجاویز پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ رینڈ کارپوریشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکی فوج فضائی حملوں میں ہونے والے شہری نقصانات اور ہلاکتوں کا اندازہ لگانے اور ان کی تحقیقات کے لیے ایک ناکافی اور ناقص پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی کے دوران امریکی فوج دشمن پر اپنی توجہ بہت زیادہ مرکوز کر دیتی ہے جس سے شہری پوری طرح نظر انداز ہوجاتے ہیں، حالانکہ اس مسئلے سے بچا جا سکتا ہے۔

رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری ہلاکتوں کے بارے میں فوج کی اپنی داخلی رپورٹنگ ناقابل اعتبار اور نامکمل ہو سکتی ہے اور شہری ہلاکتوں کے مسائل پر کام کرنے والے حکام اکثر ناکافی تربیت اور معاونت کی کمی کا سامنا کرتے ہیں۔

تھنک ٹینک نے کہا کہ امریکی فوج کو فضائی حملوں سے سویلین سوسائٹی کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں وسیع تر نظریہ رکھنے کی ضرورت ہے، جس میں نہ صرف ہلاکتوں اور زخمیوں کو بلکہ دیگر شہری بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جو کمیونٹیز اور شہروں کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شہری ہلاکتوں کے حوالے سے دیگر کوتاہیوں کے علاوہ پینٹاگون نے تحقیقات کے نتائج کو زیادہ وسیع پیمانے پر عام نہ کرکے غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کی اپنی صلاحیت کو کم کر دیا۔ یہاں تک کہ کسی واقعے میں ملوث افراد نے بھی اکثر ان تحقیقات کے نتائج نہیں دیکھے، اس لیے وہاں واقعات سے سبق نہیں سیکھ سکے۔

رینڈ کارپوریشن نے اپنی رپورٹ میں امریکی حملوں کے نتیجے میں غیر فوجی افراد کی ہلاکت پر ان کے اہل خانہ کو دیے جانے والے "معاوضہ" پر نظر ثانی کرنے کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ادائیگی کے حوالے سے کوئی یکساں پالیسی نہیں ہے۔ ہر فیلڈ کمانڈر اپنی صوابدید کے مطابق اس کا فیصلہ کرتا ہے۔ کچھ متاثرین کو پیسے دیے جاتے ہیں اور کچھ کو نہیں۔ افغانستان میں اس طرح کے معاملات اکثر و بیشتردیکھنے کو ملے ہیں۔

رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ تیار کرنے والوں میں سے ایک میک نارنی کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع کو اس طرح کی ادائیگیوں کے مقصد کو زیادہ بہتر طور پر وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی وزیر دفاع نے فوجی کارروائیوں کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں سے پیدا شدہ مسائل کو بہتر طور پر حل کرنے کے لیے ایک 'سویلین پروٹیکشن سینٹر' کے قیام کا بھی حکم دیا۔

لائیڈ آسٹن نے اپنے حکم نامے میں کہا، "شہری نقصان کو کم کرنے اور اس پر جواب دینے کی ہماری کوششیں امریکی اقدار کی براہ راست عکاس ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک اسٹریٹیجک اور اخلاقی ضرورت ہے۔"

رینڈ کارپوریشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ امریکی فوج شہری نقصانات اور ان کی تحقیقات کے لیے ایک ناکافی اور ناقص پالیسی پر عمل پیرا ہے
رینڈ کارپوریشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ امریکی فوج شہری نقصانات اور ان کی تحقیقات کے لیے ایک ناکافی اور ناقص پالیسی پر عمل پیرا ہےتصویر: Sifatullah Zahidi/AFP

کیا یہ اقدام کافی ہے؟

حقوق انسانی کے لیے سرگرم تنظیم امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے آسٹن کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا لیکن ساتھ ہی یہ سوال اٹھا یا کہ آیا یہ اقدام کافی ہے۔

اے سی ایل یو کے نیشنل سیکورٹی پراجیکٹ کی ڈائریکٹر حنا شمسی کا کہنا تھا،" اگرچہ شہری نقصان پر امریکی محکمہ دفاع کی ایک سنجیدہ کوشش کا طویل عرصے سے انتظار تھا اور یہ خوش آئند اقدام ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہدایت نامہ اس ضمن میں کافی ہوگا۔ "

انہوں نے مزید کہا، "شہری نقصان سے بچنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ صحیح معنوں میں ادارہ جاتی تبدیلی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر خامیوں، بین الاقوامی قانون کی ممکنہ خلاف ورزیوں اور ممکنہ جنگی جرائم، جو گذشتہ 20 برسوں میں رونما ہوئے ہیں، کو دور کیا جا سکے۔"

ج ا / ص ز  (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں