امریکا پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدہ ہو گیا
4 نومبر 2020امریکا ماحولیاتی تحفظ سے متعلق 2015ء کے پیرس معاہدے سے بدھ کے روز باضابطہ علیحدہ ہو گیا۔ اسی کے ساتھ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کے مقصد سے بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدے سے الگ ہونے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گزشتہ برس اقوام متحدہ کو اس معاہدے سے امریکا کے الگ ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ معاہدے سے باضابطہ الگ ہونے کے لیے نوٹس دینے کے بعد کم از کم ایک برس تک لازمی طور پر انتظار کرنا پڑتا ہے، یہ مدت بدھ کے روز پوری ہو گئی۔
پیرس معاہدے میں اب امریکا کی دوبارہ شراکت امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج پر منحصر کرے گا۔
ٹرمپ معاہدے کے خلاف، بائیڈن حق میں
ماحولیاتی تحفظ کے متعلق اس بین الاقوامی معاہدے کے سخت مخالف ڈونلد ٹرمپ نے 2017 ء میں ہی اس تاریخی معاہدے سے امریکا کو الگ کرنے کا پہلی مرتبہ اعلان کیا تھا لیکن اقوام متحدہ کے ضابطے کے مطابق کسی بھی ملک کو معاہدہ کرنے کے بعد سے تین برس تک اس سے علیحدہ ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
اگر ٹرمپ دوسری مدت کے لیے امریکا کے صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور چین کے بعد آلودگی پھیلانے والا دوسرا سب سے بڑا ملک امریکا اس ماحولیاتی تحفظ کے اس معاہدے سے الگ رہے گا۔
اپنے دور صدارت کے دوران ٹرمپ نے متعدد مواقع پر ماحولیاتی سائنس پرسوالات اٹھائے تھے۔ وہ پیٹرول اور ڈیزل جیسی ایندھن والی صنعت کی وکالت اور کہا جاتا ہے کہ اس طرح وہ ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کو کمزور کرتے رہے ہیں۔
اس کے برخلاف ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوتے ہیں توامریکا، پیرس معاہدے میں فوراً دوبارہ شامل ہوجائے گا۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی اورعالمی حدت انسانیت کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہیں اور اس کا مقابلہ کرنا امریکا کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
بائیڈن نے 2050 تک امریکی کاربن کے اخراج کو صفر تک لانے کے لیے 1.7 ٹریلین ڈالر کا ایک منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔
’کرو یا مرو‘
امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج خواہ جو بھی سامنے آئیں یہ بات یقینی ہے کہ امریکا 12 دسمبر کو برطانیہ اور اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے ماحولیاتی چوٹی کانفرنس سے باہر رہے گا۔ یہ کانفرنس پیرس معاہدے کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی جارہی ہے۔
ماحولیاتی سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمینی ماحول رفتہ رفتہ تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلی اور زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی روک تھام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تھے تو عالمی حدت میں دو ڈگری سیلسیس سے زیادہ کا اضافہ ہو سکتا ہے جس کے سبب شدید موسم، سمندری سطح میں اضافے اور طوفانوں سمیت کئی عوامل زمین پر زندگی کی بقا خطرے میں ڈال سکتے ہیں، جبکہ اس سلسلے میں اقدامات کے لیے وقت بھی زیادہ دستیاب نہیں ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے بین حکومتی پینل کا کہنا ہے کہ اگر اس صدی کے وسط تک گرین ہاوس گیسوں کے عالمی اخراج کو صفر تک کر دیا جائے تو اس تباہی کو ٹالا جا سکتا ہے۔
ڈچ ماحولیاتی سائنس داں نکلاس ہون نے بائیڈن کے منصوبے کی تائید کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا”یہ الیکشن بین الاقوامی ماحولیاتی پالیسی کے لحاظ سے کرو یا مرو کی صورت پیدا کرسکتی ہے۔ بائیڈن کے ماحولیاتی منصوبے سے درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی آسکتی ہے۔ اور ایک ڈگری کے دسویں حصے کی بھی اہمیت ہے۔"
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)