1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا، چین، پاکستان سمیت دنیا کی نظریں پوٹن مودی ملاقات پر

جاوید اختر، نئی دہلی
4 اکتوبر 2018

روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی باہمی تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کے لیے بات چیت کررہے ہیں اور پوری دنیا بالخصوص امریکا، چین اور پاکستان کی نظریں اسی ملاقات پر لگی ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/35zfa
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/M. Swarup

صدر ولادیمیر پوٹن کے آج جمعرات چار اکتوبر سے شروع ہونے والے بھارت کے دو روزہ دورے کے دوران ماسکو اور نئی دہلی ایک ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں، جس سے چین اور پاکستان کی پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں۔ دوسری طرف اسی وجہ سے بھارت کے خلاف امریکی پابندیوں کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔

کل جمعہ پانچ اکتوبر کو صدر پوٹن اور وزیر اعظم مودی کے درمیان سرکاری وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد پانچ بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ایک ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط ہو جانے کی امید ہے، جس کے تحت روس بھارت کو انتہائی جدید فضائی دفاعی میزائل نظام ایس چارسو فروخت کرے گا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس ڈیفنس میزائل سسٹم کے مل جانے کے بعد بھارت کا دفاعی نظام جہاں کافی مستحکم اور تقریباً ناقابل تسخیر ہو جائے گا، وہیں پر پڑوسی ممالک کے دفاعی نظام بھی اس سے کمتر ہو جائیں گے۔

نئی دہلی میں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس چار سو طرز کے ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم مل جانے کے بعد بھارتی فوج حریف ممالک کی تمام سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھ سکے گی۔ اس کی رفتار سترہ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہے، جو کسی بھی موجودہ طیارے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کی مدد سے بھارتی فوج پاکستان کے چپے چپے پر نگاہ رکھ سکے گی اور پاکستان کی طرف سے کسی بھی طرح کا حملہ کرنے سے قبل ہی اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ یہ روسی میزائل سسٹم اب تک روس کے علاوہ صرف چین اور ترکی کے پاس ہیں۔

یہ سوال تاہم اپنی جگہ برقرار ہے کہ روس کے ساتھ اس سودے کے بعد اگر امریکا نے بھارت پر پابندیاں عائد کر دیں، تو کیا ہو گا؟ گزشتہ ماہ واشنگٹن نے اسی طرح کی پابندی چین پر اس وقت لگا دی تھی، جب اس نے روس سے جنگی طیارے اور نئے میزائل ڈیفنس سسٹم خریدے تھے۔

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اس سودے کے ذریعے ایک طرف روس کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ماسکو اب بھی نئی دہلی کا ’خاص دوست‘ ہے تو دوسری طرف امریکا کو بھی یہ اشارہ دینا چاہتا ہے کہ ’ہم آپ کے دوست ہیں لیکن ہم آپ کی تمام باتیں ماننے والے نہیں ہیں‘۔

معروف تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انیلیسس سے وابستہ لکشمن کمار بہیرا نے اس معاہدے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’روس چین کو ایس چار سو میزائل ڈیفنس سسٹم پہلے ہی دے چکا ہے۔ اس کے بعد ہی بھارت روس کے ساتھ اس دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہوگیا تھا۔ یہ بہت خاص دفاعی سودا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ بھارت یہ سسٹم حاصل کرنے کے دوران امریکا کے سامنے نہیں جھکے گا۔‘‘

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سودے سے جہاں ایک طرف امریکا کو کافی مایوسی ہو گی، وہیں پاکستان کی فکر مندی بھی بڑھ جائے گی۔ دفاعی امور کے ماہر راہول بیدی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، ’’یہ پاکستان کے لیے بہت تشویش کی بات ہو گی۔ ایس چار سو آنے کے بعد بھارت پاکستان پر اور بھی بھاری پڑے گا۔ دراصل بھارت نے امریکا سے ہتھیاروں کی خریداری شروع کی تھی، تو پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات بڑھنے لگے تھے۔ ایسے میں بھارت کو ڈر تھا کہ روس کہیں پاکستان کو ایس چارسو میزائل نہ دے دے۔ بھارت نے روس کے ساتھ اس سودے میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ پاکستان کو ایس چار سو میزائل سسٹم نہیں دے گا۔‘‘

راہول بیدی نے مزید لکھا ہے، ’’روس اگر پاکستان کو ایس چار سو میزائل نہیں دیتا، تو اس کو اس کا کوئی متبادل نہیں ملے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یورپ یا امریکا اس کے جواب میں کوئی ڈیفنس سسٹم دیں گے۔ پاکستان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ اسے خرید سکے۔ بھارت او رروس پر اب امریکا کا دباؤ بہت کا م نہیں کرے گا۔ ایسا اس لیے کہ دونوں ممالک نے گزشتہ دو تین ماہ سے اپنی اپنی کرنسی روپے اور روبل میں کاروبار کرنا شروع کردیا ہے۔‘‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور روس کے درمیان ایس چار سو میزائل ڈیفنس سسٹم کے سودے سے امریکا کے بھارت سے ناراض ہو جانے کا خدشہ تو ہے لیکن بھارت کے لیے یہ خطرہ مول لینا بھی ضروری ہے۔ دفاعی امور کے ماہر اور سوسائٹی فار پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) اُدھے بھاسکر کا کہنا ہے، ’’بھارت کے لیے امریکا اور روس دونوں سے بہتر تعلقات رکھنا ضروری ہے اور اسے اس سلسلے میں بہت سوچنا ہو گا۔ بھارت کو ایک سیاسی اور اسٹریٹیجک فیصلہ کرنا ہو گا کہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو وہ کس طرح محفوظ رکھتا ہے اور اپنے پرانے دوست روس کے ساتھ بھی بہتر تعلقات کیسے قائم رکھتا ہے۔‘‘

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق سوویت یونین بھارت کا گہرا دوست تھا لیکن گزشتہ چندبرسوں میں ہونے والی عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں بھارت کا رخ امریکا کی طرف ہوتا چلا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں امریکا بھارت کو ہتھیاروں کی سپلائی کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے لیکن روس اب بھی پہلے نمبر پر ہے۔ اسٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا سِپری کے مطابق 2012 سے 2016 کے درمیان بھارت کی مجموعی دفاعی درآمدات میں سے 68 فیصد تجارت روس کے ساتھ ہوئی تھی۔

صدر پوٹن اور وزیر اعظم مودی کل جب بات چیت کریں گے، تو بھارت روس سے دو بلین ڈالر کے کراواک کلاس کے چار جنگی جہاز اور ایک بلین ڈالر کے کے اے 226 جنگی ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے لیے بھی بات آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں