امریکا کا جرمنی سے توقع سے زیادہ فوج واپس بلانے کا اعلان
30 جولائی 2020یہ پیش رفت سرد جنگ کے بعد سے جرمنی میں فوجیوں کی سب سے بڑی منتقلی ہے اور اس پر اگلے ہفتے سے عمل درآمد شروع ہوسکتا ہے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکا جرمنی میں اپنے گیارہ ہزار 900 فوجیوں کو کم کرکے ان میں سے کچھ کو واپس بلا رہا ہے اور کچھ فوجیوں کو یورپ کے دیگر ملکوں میں منتقل کررہا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں پنٹاگون نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی سے 9500 فوجیوں کو واپس بلانے کے منصوبے کو منظوری دے دی ہے۔ تاہم بدھ کے روز امریکی وزیر دفاع ایسپر نے واضح تعداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 11900 فوجیوں کو جرمنی سے واپس بلایا جارہا ہے۔
اس منصوبے کے تحت امریکا اپنے 6400 فوجیوں کو جرمنی سے واپس بلائے گا اور 5400 کو یورپ کے دیگر ملکوں میں تعینات کرے گا۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق اب تقریباً 25000 امریکی فوجی ہی جرمنی میں رہ جائیں گے۔
مارک ایسپر نے بتایا کہ جن امریکی فوجیوں کو جرمنی سے واپس بلایا جا رہا ہے ان میں سے 5400 کو اٹلی اور بیلجیئم میں تعینات کیا جائے گا تاہم اگر وارسا راضی ہوجائے تو، ان میں سے کچھ کو، پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں وارسا کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ فوج کی نئی تعیناتی روس کے خلاف امریکی اسٹریٹیجی پر نظرثانی کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔
مارک ایسپر نے کہا ”یہ تبدیلیاں بلاشبہ روس کے خلاف امریکا اور نیٹو کی استعداد کار کو بڑھانے کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے"۔انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد نیٹو کو مضبوط بنانا، اتحادیوں کو یقین دلانا اور امریکی حکمت عملی میں لچک کو بہتر بنانا ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ اس اقدام سے جرمنی میں اہم اقتصادی اور اسٹریٹیجک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جہاں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے سیکڑوں امریکی فوجی تعینات ہیں۔
’جرمنی کو زیادہ خرچ کرنا چاہیے‘
مارک ایسپر نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا فوجیوں کی منتقلی کا یہ فیصلہ جرمنی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے تبصروں کا نتیجہ ہے۔ ٹرمپ اکثر یورپی حلیفوں کی اس بات کے لیے نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ وہ دفاع کے مد میں خاطر خواہ خرچ نہیں کررہے ہیں اور نیٹو کے تئیں اپنی مالی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں 'تساہلی‘ سے کام لے رہے ہیں۔
بدھ کے روز صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ”یورپی حلیفوں کے ذمے نیٹو کا اربوں ڈالر واجب الادا ہے۔ اب جرمنی یہ کہہ رہا ہے کہ اس کی اقتصادی حالت خراب ہے۔" انہوں نے فوجیوں کی جزوی واپسی کے اقتصادی مضمرات کے حوالے سے کہا”کیا یہ ہماری معیشت کے لیے بہتر ہے۔ وہ کئی برسوں سے ہم سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔“
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا ''ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں مزید نچوڑتا رہے۔ لیکن اگر وہ واجب الاد ا رقومات کی ادائیگی شروع کردیں تو ہم اس منصوبے پر از سر نو غور کرسکتے ہیں۔"
مارک ایسپر نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی ایک ”دولت مند ملک" ہے اور اسے اپنے دفاع پراور زیادہ خرچ کرنا چاہیے۔
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے 2020 میں اپنی جی ڈی پی کا 13.7 فیصد دفاع پر خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
باہمی تعلقات پر 'بوجھ‘
دریں اثنا امریکا کے ریٹائرڈ جنرل بین ہوجیز نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ امریکی فوج کی دوسری جگہ تعیناتی کا فیصلہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ ”یورپ میں امریکا کا سب سے اہم اتحادی جرمنی ہے۔ اور امریکی فوج کی واپسی 'کریملن کے لیے ایک تحفہ ہوگا۔" اس سے روسی جارحیت کے خلاف کسی اقدام کے بغیر ہی یورپ میں امریکی صلاحیت میں کمی آجائے گی۔
باویریا کے وزیر اعظم مارکس سودر نے بھی فوج واپس بلانے کے امریکی منصوبے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی واضح فوجی مقصد پورا نہیں ہوگا اور نیٹو اتحاد بلکہ خود امریکا بھی کمزور ہوجائے گا۔
مارکس سودر کا کہنا تھا”بدقسمتی سے یہ جرمن۔ امریکی تعلقات پر ایک بوجھ بن جائے گا۔" ان کا کہنا تھا”ہم دیکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب تک قائم رہتا ہے۔“ ان کا اشارہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کی طر ف تھا۔
خیال رہے کہ چار جرمن ریاستوں کے رہنماؤں نے امریکی کانگریس سے فوج کی کمی کو روکنے پر زور دیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ اس سے ماسکو کے خلاف بحر اوقیانوس سے متعلق قائم اتحاد کمزور ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے متعدد اراکین نے بھی جرمنی سے فوج واپس بلانے کے فیصلے کی نکتہ چینی کی تھی۔
ج ا / ص ز (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)