’جرمنی سے امریکی فوج کی منتقلی تعلقات کو مزید خراب کرے گی‘
6 جون 2020امریکا کے جرمنی میں موجود فوجیوں کی تعداد تقریباً چونتیس ہزار پانچ سو ہے۔ واشنگٹن حکومت ان میں سے ساڑھے نو ہزار کو کسی اور مقام پر منتقلی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ فوجیوں کی منتقلی کے مقام اور تاریخ سامنے نہیں آئی ہے۔ ایک امکان ہے کہ جرمنی سے نکالے جانے والے فوجی پولینڈ منتقل کیے جا سکتے ہیں۔
ایک اور قدامت پسند جرمن سیاستدان نے اس ممکنہ امریکا کے فیصلے کو ایک ’ویک اپ کال‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کنزرویٹو سیاستدان اندریاس نِک کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ قدم بحر اوقیانوس کے آرپار خراب ہوتے دو طرفہ تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث بنے گا۔
یہ بھی پڑھیے: جرمنی سے اپنی فوج منتقل کر دیں گے، امریکی دھمکی
جرمن سیاستدانوں کے خیالات ان رپورٹوں کے بعد سامنے آئے ہیں جو امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل، جرمن میگزین ڈیئر اشپیگل اور بین الاقوامی نیوزایجنسی روئٹرز میں سامنے آئی ہیں۔ ان سبھی میں ایک بات مشترک ہے کہ امریکی حکومت ان فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے میں سنجیدہ ہے جو جرمنی میں متعین ہیں۔
ان فوجیوں کی منتقلی کی بنیادی وجہ جرمن حکومت کا امریکی مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے دفاعی اخراجات میں مناسب اضافہ کرنے سے قاصر رہنا ہے۔
جرمنی میں حکمران سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے خارجہ امور کے ماہر اور رکن پارلیمنٹ اندریاس نِک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا اس امریکی پلان کی تفصیلات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس کی تصدیق کی کہ برلن حکومت کو اس اقدام کے بارے میں فی الحال کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے اس پلان کو نامناسب بھی خیال کیا۔
اندریاس نِک کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے صدر دفتر پینٹاگون نے بھی فوج کی منتقلی کو عام نہیں کیا اور اس مناسبت سے تفصیلات حاصل کرنے کی مختلف درخواستوں کو جواب دینے کے لیے وائٹ ہاؤس بھیج دیا گیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے کسی بھی فیصلے کے پسِ پردہ سیاسی محرکات ہیں۔
مزید پڑھیے: برلن ’نیٹو اتحاد کو کمزور‘ کر رہا ہے، امریکی خفیہ ادارے کے سربراہ کا الزام
ہفتہ چھ جون کو ایک اور سینیئر قدامت پسند سیاستدان ژوہان واڈیفُل کا کہنا ہے کہ امریکا کا اپنی فوج کی منتقلی کا فیصلہ یورپ کو جاگنے کا وقت ہے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کا بھی وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ قیادت کے بنیادی معاملے سے پہلو تہی کی کوشش میں ہے۔ واڈیفُل کے مطابق امریکا اتحادیوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے سے بھی دوری اختیار کر رہا ہے اور یہ جاننا ضروری ہے کہ اتحاد میں سبھی کا فائدہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے میں پوشیدہ ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمنی یورپ میں امریکی فوج اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ساتھ ساتھ وسیع یورپی خطے کے لیے ایک اہم دفاعی اسٹریٹیجک مرکز ہے۔ رامشٹائن ایئر بیس ایسا ہی ایک بڑا فوجی بیس ہے جو جنوب مغربی جرمنی میں واقع ہے۔ جنوری سن 2017 سے امریکا اور جرمنی کے باہمی تعلقات میں بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ دونوں ملکوں کے جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی معاملات اور ماحولیاتی پالیسی پر اختلاف رائے کا پیدا ہونا ہے۔ سن 2017 ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: جرمنی کے کم دفاعی اخراجات پر ٹرمپ کی جانب سے پھر تنقید
ادہر پولینڈ کے وزیر اعظم ماتیوس موراویئسکی کہہ چکے ہیں کہ امریکا کچھ فوجیوں کو جرمنی سے نکال کر پولستانی سرزمین پر بھی متعین کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں ماضی میں وارسا اور واشنگٹن حکومتیں اس موضوع پر بات چیت کر چکی ہیں۔ پولش وزیر اعظم کا واضح طور پر کہنا ہے کہ فوجیوں کی تعیناتی کا حتمی فیصلہ امریکی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔
ع ح، ع آ (روئٹرز، ڈی پی اے)