امریکا کا شام سے فوجی انخلاء کا کوئی ارادہ نہیں، روسی وزیر
24 اپریل 2018روسی دارالحکومت ماسکو سے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے کے حوالے سے منگل چوبیس اپریل کو ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا کہ واشنگٹن حکومت ایسے زبانی بیانات تو دے چکی ہے کہ وہ شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے منصوبے رکھتی ہے تاہم عملی طور پر ایسے امکانات نظر ہی نہیں آتے کہ امریکا مشرق وسطیٰ کی اس کئی سالہ جنگ سے تباہ حال ریاست سے اپنے دستے واپس بلا لے گا۔
’روس شام میں اسرائیلی کارروائیوں کو محدود نہیں کر سکتا‘
شام پر امريکی و اتحاديوں کے حملے، يورپی رياستیں منقسم
لاوروف نے چینی دارالحکومت بیجنگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے منگل چوبیس اپریل کے روز کہا کہ وہ اپنے فرانسیسی ہم منصب سے ملاقات کرنے والے ہیں، اور انہیں امید ہے کہ اس ملاقات کے بعد اس حوالے سے صورت حال کچھ واضح ہو سکے گی کہ شامی تنازعے کے حل کے لیے ٹھوس بنیادوں پر تعاون کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
اس گفتگو کے دوران روسی وزیر خارجہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کینیڈا میں دنیا کے سات صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے کل پیر تئیس اپریل کو روس پر جو تنقید کی تھی، اور ماسکو پر عدم استحکام کا باعث بننے کا جو الزام لگایا تھا، اس پر روسی موقف کیا ہے، تو سیرگئی لاوروف نے کہا، ’’ان ممالک کے اس موقف کی وضاحت صرف اسی طرح کی جا سکتی ہے کہ ان کی منطق ’روس سے خوف‘ پر مبنی ہے۔‘‘
امریکا نے جنگ زدہ شام کے چند علاقوں میں اپنے مسلح فوجی دستے تعینات کر رکھے ہیں، جو واشنگٹن حکومت کے بقول صدر اسد کی حامی شامی فورسز کے خلاف لڑنے والے کرد ملیشیا گروپوں کی عسکری مشاورت کرتے ہیں۔ امریکا کی طرف سے ان کرد ملیشیا گروپوں کے ہتھیار بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
کیا شام کا مسئلہ ایک اقتصادی جنگ ہے؟
شام، امریکی فورسز دوبارہ حملے کے لیے ’ہردم تیار‘ ہیں، ٹرمپ
واشنگٹن حکومت کا دعویٰ ہے کہ امریکی دستے شامی خانہ جنگی میں خود کوئی فریق نہیں ہیں اور بنیادی طور پر ان کا مقصد وہاں داعش کے خلاف لڑنے والے مسلح گروپوں کی مدد کرنا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ماضی قریب میں واشنگٹن کی طرف سے یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ شام میں امریکی دستے وہاں طویل عرصے تک بھی موجود رہ سکتے ہیں۔
م م / ا ا / روئٹرز