1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کرد جنگجوؤں کو مزید اسلحہ نہیں دے گا، ترک نیوز ادارے

عاطف بلوچ، روئٹرز
27 جنوری 2018

امریکا نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ شام میں فعال کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کو مزید اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔ ترک میڈیا نے یہ خبر ایک ایسے وقت میں نشر کی ہے، جب شامی علاقے عفرین میں ترک فوجی کارروائی آٹھویں دن میں داخل ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2rc18
3. Bildergalerie Syrien Kriegsreportage aus der Todesfalle Rakka
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Umnaber

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ترک سرکاری نیوز ایجنسی ایجنسیوں نے ستائیس جنوری بروز ہفتہ بتایا ہے کہ امریکا نے ترک حکام سے کہہ دیا ہے کہ شام میں فعال کرد جنگجوؤں کو مزید فوجی مدد فراہم نہیں کی جائے گی۔ شام میں ترکی فوجی کارروائی کے باعث نہ صرف شامی جنگ مزید پیچیدہ ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے بلکہ اب نیٹو رکن ممالک امریکا اور ترکی کے مابین بھی ایک نئی کشیدگی کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔

ترکی شام میں مسلح آپریشن محدود رکھے، ٹرمپ

ترکی کا عفرین میں ڈھائی سو سے زائد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ

نیا موڑ، ترک افواج شام میں داخل ہو ہی گئیں

انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ ترک سے متصل شامی علاقوں میں فعال ’وائی پی جی‘ نامی کرد جنگجو دراصل کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)  سے وابستہ ہیں۔ ترک حکومت ’پی کے کے‘ پر الزام دھرتی ہے کہ وہ ملک میں کئی حملوں میں ملوث ہے۔

ترکی ان کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔ اسی لیے ترکی نے ملکی سالمیت اور خودمختاری کی خاطر ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ تاہم شام میں فوجی دستوں کی تعیناتی پر امریکا اور فرانس نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ شام کی جنگ میں ایک اہم فریق ’وائی پی جی‘ انتہا پسندوں کے خلاف فعال ہے۔ اس جنگجو گروہ کو امریکا کی حمایت حاصل رہی ہے۔ ماضی میں امریکی حکومت ان جنگجوؤں کو اسلحہ بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ تاہم اب ترکی نے امریکا سے کہا ہے کہ اس گروہ کی عسکری و مالی مدد نہ کی جائے۔

اسی تناظر میں ہفتے کے دن ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے صدر رجب طیب ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایردوآن اور امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر کے مابین ہونے والی گفتگو میں واشنگٹن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اب اس کرد تحریک کو مزید اسلحہ فراہم نہیں کیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ایردوآن اور میک ماسٹر کے مابین یہ ٹیلی فونک گفتگو جمعے کی شب ہوئی۔

اگرچہ دمشق حکومت پہلے بھی الزام عائد کر چکی ہے کہ ترک بری افواج نے شامی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ترک حکومت نے اعلانیہ کہا ہے کہ ترک فوجی شام میں داخل ہوئے ہیں۔

ترک وزیر اعظم کے مطابق اس کارروائی کا مقصد ان کرد باغیوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سکیورٹی زون قیام کیا جا سکے۔