امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ جنگی مشقوں کا آغاز
25 جولائی 2010ان بحری فضائی مشقوں میں جنوبی کوریا اور اس کے بڑے اتحادی ملک امریکہ کے تقریبا 20 جنگی بحری جہاز، 200 ہوائی جہاز اور دونوں ملکوں کے تقریبا آٹھ ہزار فوجی حصہ لے رہے ہیں۔
واشنگٹن اور سیئول کا کہنا ہے کہ ان مشترکہ سمندری اورفضائی مشقوں کا مقصد اس سال مارچ میں شمالی کوریا کے ہاتھوں، جنوبی کوریا کی اس جنگی بحری جہاز کی غرقابی کے بعد پیونگ یانگ کو ایک واضح اشارہ دینا ہے۔
جنوبی کوریا کے جنگی بحری جہاز کی غرقابی کے سلسلے میں ایک بین الاقوامی تحقیقاتی گروپ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ جہاز شمالی کوریا کے ایک تارپیڈو حملے کے نتیجے میں تباہ ہوا تھا۔ تاہم شمالی کوریا اس سلسلے میں اپنے خلاف الزامات کی واضح طور پر تردید کرتا ہے۔
کل ہفتے کے روز پیونگ یانگ نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی ان مشترکہ فوجی مشقوں کے جواب میں پیونگ یانگ مجبورا اپنا جوہری اسلحہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ان مشقوں کے ذریعے سیئول اور واشنگٹن پیونگ یانگ میں فوجی اور سیاسی قیادت کو یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ جزیرہ نما کوریا میں کس فریق کے پاس زیادہ طاقت ہے۔
کئی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شمالی کوریا کےحا لیہ بیانات بھی ماضی کی طرح ایسی ہی بڑی اور سنگین دھمکیوں کا حصہ ہیں۔ اس لئے ان مشترکہ مشقوں کے خلاف پیونگ یانگ کے موجودہ بیانات کوئی نئی بات نہیں۔
اس کے باوجود ان مشقوں اور کمیونسٹ کوریا کی دھمکیوں کی وجہ سے علاقے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ چین کی طرف سے فریقین پر اس بارے میں زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے رویوں میں احتیاط پسندی کا مظاہرہ کریں۔
جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے مطابق شروع میں یہ مشترکہ مشقیں بحیرہ زرد کے حساس علاقے میں کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا لیکن پھر آخری وقت میں یہ چار روزہ مشقیں بحیرہء جاپان کے علاقے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس کی وجہ ان مشقوں کے حوالے سے شمالی کوریا کے اتحادی ملک چین کی طرف سے کیا جانے والاحتجاج بنا۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : عاطف توقیر