امریکہ میں سٹارٹ معاہدے کی توثیق : کچھ لو، کچھ دو
14 مئی 2010جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے امریکی کانگریس کو بھیجی جانے والی اِس رپورٹ میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سلامتی سے متعلق امریکی پالیسیوں میں حریفوں کو ایٹمی اسلحے سے خائف رکھنے کی سیاست بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ اِس شعبے میں اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اوباما غالباً اپوزیشن کے اِن خدشات کو دُور کرنا چاہتے ہیں کہ روس کے ساتھ حال ہی میں ایٹمی اسلحے کے ذخائر میں کمی کے جس سٹارٹ معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، اُس سے امریکہ کی دفاعی قوت کمزور ہو جائے گی۔
اِس رپورٹ کے جو چند حصے منظرِ عام پر آئے ہیں، اُن میں کہا گیا ہے کہ اِس منصوبے کے تحت جوہری ہتھیاروں کو زیادہ دیر تک استعمال کے قابل بنایا جا سکے گا۔ رپورٹ کے مطابق ’’ایٹمی استعداد سے حریفوں کو مؤثر طور پر خائف رکھنے کے لئے امریکہ کو ایک جدید اقتصادی ڈھانچہ اور انتہائی مہارت اور قابلیت کی حامل افرادی قوت درکار ہو گی۔‘‘ اِس منصوبے کے لئے آئندہ دَس برسوں میں جو 80 ارب ڈالر مختص کئے گئے ہیں، وہ اُن سات ارب ڈالر کے علاوہ ہیں، جو اِسی مقصد کے لئے سن 2011ء کے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو سٹارٹ معاہدہ توثیق کے لئے امریکی سینیٹ کو بھجوا دیا تھا۔ اوباما اور روسی صدر دمتری میدویدیف کے درمیان اِس معاہدے پر اتفاقِ رائے کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد مارچ کے اواخر میں عمل میں آیا تھا۔ سٹارٹ معاہدے کو ایٹمی اسلحے کے ذخائر پر کنٹرول اور اُن میں تخفیف کے سلسلے میں ایک بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے۔
اسٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی کہلانے والے اِس معاہدے میں سرد جنگ کے دور کے اِن دونوں سابقہ حریف ملکوں نے طے کیا ہے کہ آئندہ سات برسوں کے دوران وہ اپنے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں تیس فیصد کی کمی کر دیں گے۔
اب اِس معاہدے کی امریکی سینیٹ کی جانب سے توثیق ہونا لازمی ہے تاہم یہ بات یقینی نہیں ہے کہ وہاں اِس معاہدے کو مطلوبہ دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہو سکے گی۔ واضح رہے کہ 2009ء کے اوائل میں برسرِ اقتدار آنے کے فوراً بعد اوباما نے ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دُنیا کو اپنا نصب العین قرار دیا تھا اور اِسی بناء پر اُنہیں امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ تاہم مارچ میں طے ہونے والے سٹارٹ معاہدے کا ایک اور مقصد امریکہ اور روس کے اُن باہمی تعلقات کو بھی معمول پر لانا ہے، جو بُش حکومت کے دوران خاصا تناؤ کا شکار ہو گئے تھے۔
موجودہ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے، جو بُش انتظامیہ میں بھی اِسی عہدے پر کام کرتے تھے، کہا ہے کہ اِس معاہدے کو امریکہ کی فوجی قیادت کی متفقہ حمایت حاصل ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل میں اپنے ایک تبصرے میں گیٹس نے لکھا ہے: ’’امریکہ اِس معاہدے کے ہوتے ہوئے کہیں بہتر پوزیشن میں ہے، بجائے اِس کے بغیر۔ یہ معاہدہ امریکہ اور اُس کے حلیف ملکوں کی سلامتی کو مستحکم بناتا ہے اور دُنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان دفاعی استحکام کو فروغ دیتا ہے۔‘‘
باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ اُن کے دَورِ صدارت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ گزشتہ مہینے اُنہوں نے ایک ایسی پالیسی متعارف کروائی، جس میں امریکہ کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو محدود بنانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے نہ صرف یہ کہا ہے کہ نئے ایٹمی ہتھیار تیار نہیں کئے جائیں گے بلکہ پہلی مرتبہ امریکی ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے کا تازہ ترین حجم بھی بتا دیا ہے۔ روس نے کہا ہے کہ سٹارٹ معاہدے کے نافذالعمل ہونے کے بعد وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایسا ہو گیا تو چین، پاکستان، بھارت اور اسرائیل جیسی دیگر ایٹمی طاقتوں پر بھی اپنی اپنی ایٹمی صلاحیت سے متعلق تمام تر تفصیلات منظرِ عام پر لانے کے لئے دباؤ بڑھ جائے گا اور دُنیا بھر میں ایٹمی اسلحے کے ذخائر میں کمی کا رُجحان نظر آ سکتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک