مودی اور پوٹن کی دوستی پر بھارت کو امریکہ کی تنبیہ
12 جولائی 2024بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے جمعرات کے روز کہا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور گہرے ہو چکے ہیں، لیکن یہ اتنے گہرے بھی نہیں ہوئے ہے کہ ان رشتوں کو ''آسانی سے لیا جائے۔''
بھارتی زیر اعظم نریندر مودی کے دورہ روس کے تناظر میں ان کے اس بیان کو بھارت کے لیے ایک دو ٹوک پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کو مغرب کی جانب سے کئی پابندیوں کا سامنا ہے۔
مودی کی پوٹن سے بات چیت اور بھارت کو امریکی نصیحت
دہلی میں ایک دفاعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ بھارت اپنی ''اسٹریٹجک خود مختاری'' کو پسند کرتا ہے لیکن تنازعے کے دوران ''اسٹریٹیجک خود مختاری'' نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔
امریکی سفیر نے کیا کہا؟
امریکی سفیر کا یہ بیان مودی کے دورہ روس اور آسٹریا سے واپسی کے محض چند گھنٹے بعد آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے سے مربوط دنیا میں، ''اب کوئی جنگ دور کی بات نہیں ہے۔''
'امریکہ بھارت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے'، روس
انہوں نے کہا کہ نہ صرف امن کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کرنا ہوں گے کہ جو لوگ پرامن اصولوں پر نہیں چلتے ان کی جنگی مشینیں یونہی ''بے لگام جاری نہیں رہ سکتیں۔"
غزہ کی جنگ کے باوجود بھارت کو اسرائیلی فوجی برآمدات جاری
امریکی سفیر نے کہا کہ یہی وہ چیز ہے جو امریکہ اور بھارت کو مل کر جاننے کی ضرورت ہے۔ ''ہمارے لیے بطور امریکی اور بھارتی یہ اہم ہے کہ ہم اس رشتے کو جتنا زیادہ مضبوط رکھیں گے، اتنا ہی ہم باہر نکل سکیں گے۔ جتنا زیادہ ہم ایک بھروسے مند رشتے سے زیادہ گھٹیا قسم کے حساب کتاب پر اصرار کریں گے، اتنا ہی ہم کم حاصل کر سکیں گے۔''
بھارت اور امریکہ کے درمیان اربوں ڈالر کے ڈرون سودے کو منظوری
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ''میں اپنے بھارتی دوستوں کو بھی یاد دلاتا ہوں کہ یہ رشتے وسیع اور یہ پہلے سے کہیں زیادہ گہرے ہیں، تاہم یہ ابھی اتنا گہرا بھی نہیں ہے کہ بھارت امریکہ کو آسانی سے لے یا ہمیں معمولی سمجھے۔ ہمیں اس تعلقات کو آگے بڑھانے کی کوشش میں بہت سی دفاعی جنگیں لڑنی ہیں۔''
'اسٹریٹجک خودمختاری کچھ نہیں ہوتی'
امریکی سفیر نے کہا، ''میں اس بات کا احترام کرتا ہوں کہ بھارت اپنی اسٹریٹجک خودمختاری کو پسند کرتا ہے۔ لیکن تنازعات کے وقت، اسٹریٹجک خودمختاری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہمیں بحران کے لمحات میں، ایک دوسرے کو جاننے کی ضرورت ہو گی۔ اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ ہم اسے کیا نام دیں، تاہم ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم قابل بھروسہ ایسے دوست، بھائی اور بہن ہوں، جو آگے چل کر ضرورت کے وقت مل کر کام کر سکیں۔''
قتل کی سازش کے امریکی الزامات پر وزیر اعظم مودی کا جواب
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم سب جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہم سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔۔۔ اب کوئی جنگ زیادہ دور نہیں ہے۔ اور ہمیں صرف امن کے لیے ہی کھڑے نہیں ہونا چاہیے، ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں کہ جو لوگ پرامن اصولوں کے مطابق نہیں چلتے، ان کی جنگی مشینیں بلا روک ٹوک جاری نہیں رہ سکتیں اور یہی وہ چیز ہے جو امریکہ اور بھارت کو مل کر جاننے کی ضرورت ہے۔''
مودی کے دورہ روس پر امریکہ کی ناراضی
بھارت امریکی سفیر کے یہ تنقیدی تبصرے یوکرین اور اسرائیل غزہ سمیت دنیا میں جاری متعدد تنازعات کے پس منظر میں آئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت کا اہم ترین دورہ منسوخ کر دیا
اس سے قبل بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکام اس بات سے مایوس ہیں کہ مودی نے دورہ روس کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا، جب نیٹو کا سربراہی اجلاس ہو رہا تھا اور اجلاس کے وسط میں انہوں نے پوٹن کو گلے لگایا۔
خالصتان: کیا بھارت نے اپنے سفارت خانوں کو خفیہ میمو بھیجا تھا؟
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ کرٹ کیمبل نے جولائی کے اوائل میں بھارت کے خارجہ سکریٹری ونئے کواترا سے بات چیت کی تھی اور امید ظاہر کی تھی کہ مودی کے دورہ روس کو نیٹو سربراہی اجلاس کے درمیان ہونے کے بجائے اسے دوبارہ شیڈول کیا جائے گا۔
یوکرین کے صدر بھی مودی کے دورے پر برہم
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ روس کے دوران صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ پرجوش ملاقات اور تفصیلی بات چیت پر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
یوکرینی صدر زیلنکسی نے وزیر اعظم مودی اور روسی صدر پوٹن کے درمیان نہایت قربت اور ان کے گلے ملنے کی تصویروں سخت تبصرہ کیا اور کہا، '' دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما کو ماسکو میں دنیا کے سب سے خونخوار مجرم کو گلے لگاتے ہوئے دیکھنا انتہائی مایوس کن ہے اور امن کی کوششوں کے لیے ایک تباہ کن دھچکا ہے۔''