امریکہ نے یہودی آبادکاری کے خلاف قرارداد ویٹو کر دی
19 فروری 2011قرارداد کے اس مسودے کو 130ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ اس میں کہا گیا کہ مشرقی یروشلم سمیت 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری غیر قانونی ہے اور پائیدار و جامع امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
سلامتی کونسل کے دیگر چودہ رکن ممالک نے قرار داد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے اور اس حیثیت سے کسی بھی کارروائی کو روکنے کا مجاز ہے۔
دوسری جانب برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مغربی کنارے پر اسرائیلی آبادکاری کے منصوبوں کی مذمت کی ہے اور انہیں بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں غیر قانونی قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوسن رائس نے کہا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ نے انتہائی افسوس کے ساتھ اس قرارداد کو روکا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اس امریکی اقدام کو مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر آباد کاری کے منصوبوں کی حمایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کی رائے میں اقوام متحدہ دہائیوں سے چلے آ رہے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل کی بہترین جگہ نہیں ہے۔
سوسن رائس نے کہا، ’اس قرار داد کے مسودے سے فریقین کے مؤقف میں مزید سختی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں انہیں مذاکرات سے دُور رہنے کا جواز مل سکتا ہے‘۔
بعدازاں انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’ہم آباد کاری کے اسرائیلی منصوبوں کے تسلسل کو سختی سے مسترد کرتے ہیں‘۔
اسرائیل نے اس امریکی اقدام کے ردِ عمل میں فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بحالی پر زور دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یروشلم حکومت صدر اوباما کی جانب سے سلامتی کونسل کی قراردار کو ویٹو کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔
دوسری جانب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل یاسر عابد نے امریکہ کی جانب سے قرار داد کے مسودے کو ویٹو کیے جانے کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے امریکی انتظامیہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں فلسطینی مذاکرات کے سارے عمل کا نئے سرے سے جائزہ لیں گے۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی